میں ہیں تو پھر میرے بغیر کون تمہیں رزق مہیا کرسکتا یا داتا کہلا سکتا ہے؟ گویا ربوبیت کے پہلے مفہوم کے اقرار کے نتیجہ ہی کا نام ’الوہیت‘ ہے۔ پھر اگر ربّ تم ایک ہی مانتے ہو تو پھر تمہارے یہمعبود کدھر سے آگئے؟ بس یہیں سے مخاصمت شرو ع ہوجاتی تھی۔ رہا ربوبیت کا دوسرا پہلو یعنی زندگی کے ہر گوشہ میں قانون بھی اسی اللہ کا رائج ہونا چاہئے تو یہ پہلو مخاصمت کے لحاظ سے پہلے سے بھی شدید تر تھا۔ معاشرہ میں اللہ کے عطا کردہ قانون کی فرمانروائی سے جس شخص، طبقہ ، گروہ، یا ادارہ پر زد پڑتی تھی یا اسے اپنا اقتدار خطرہ میں نظر آتا یا اختیارات چھنتے نظر آتے تھے، وہ سب نبی کی مخالفت میں اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔گویا انبیا کی دعوت محض کلمہ توحید کے اقرار کا نام نہیں ہوتا بلکہ اقتدار و اختیار کی ایک مسلسل جنگ ہوتی ہے جو انبیاے کرام کی زندگی کو عمر بھر اجیرن بناکے رکھ دیتی ہے، اسی لئے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ”أشد البلآء علی الانبياء ثم الأمثل فالأمثل“ ”سب سے زیادہ مصائب انبیاء پر نازل ہوئے ہیں ، پھر اس سے کم درجہ والوں پر، پھر اس سے کم درجہ والوں پر“ انبیاء کی دعوت کا آغاز ہمیشہ فَاعْبُدُوْا اللّٰهَ وَأَطَيْعُوْنِ سے ہوتا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی پوری پوری محکومی اور غلامی اختیار کرو اور اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ میری اطاعت کرو۔ گویا نبی تو معاشرہ میں صرف ایک اللہ کی حاکمیت کا قانون رائج کرنا چاہتا ہے۔ اب اس بات سے جس جس کے مفادات مجروح ہوتے ہیں یا جس کسی کو اپنا وقار، اختیار یا اقتدار خطرہ میں نظر آتا ہے وہ سب نبی کے خلاف ایکاکرکے درپے آزار ہوجاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ﴿ مَلأُ الَّذِيْنَ اسْتَکْبَرُوْا﴾ یعنی سردار یا سرکاری درباری قسم کے لوگ ہی انبیاء کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔ اب جن لوگوں کا معاشرہ کے ایک مخصوص حلقہ میں حکم چلتا ہے، لوگ ان کی بات مانتے اور انہیں بڑا اور سردار سمجھتے ہیں ، وہ کب یہ چاہتے ہیں کہ ایک تو اپنی اس سرداری سے دست بردار ہوں ، دوسرے الٹا نبی کے مطیع بن جائیں !! یہی حال ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو محض نسلی تفوق کی بنا پر لوگوں میں ممتاز سمجھے جاتے ہیں اور ذات پات کی تمیز نے ان کو بلند مقام عطا کیا ہوتا ہے جس میں ان کا اپنا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا۔ پھر جب کوئی نبی یہ کہتا ہے کہ سب انسان بحیثیت ِانسان ایک ہی سطح پر ہیں کیونکہ سب اللہ کی ایک جیسی مخلوق ہیں تو اونچی ذات والوں کو بھلا یہ بات کیونکر ٹھنڈی لگ سکتی ہے اور وہ اسے کیونکر برداشت کرسکتے ہیں کہ ایک قریشی اور ایک خزرجی، ایک برہمن اور ایک شودر، ایک چٹھہ اور ایک لوہار معاشرہ میں ایک جیسی نظر سے دیکھے جائیں ؟ پھر یہی حال ایک آقا اور غلام، مالک اور مزدور، افسر اور ماتحت کا بھی ہے۔ نبی یہ کہتا ہے کہ یہ آقائی اور غلامی، افسری اورماتحتی تو ایک اضطراری امر ہے کہ اس کے بغیر دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔ |