Maktaba Wahhabi

39 - 71
”ان سے پوچھوکہ تمہیں آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ آنکھوں کی بینائی اور کانوں کی شنوائی کس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کون ہے جو جاندار کوبے جان میں سے اور بے جان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟ کون ہے جو کائنات کا انتظام چلا رہا ہے؟ تو فورا ً کہہ دیں گے کہ اللہ۔کہو پھر تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں ؟… ان تمام امور کو سرانجام دینے والا ہی تمہارا ربّ ِحقیقی ہے ، اللہ ہی ہے۔حقیقت کے بعد گمراہی کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ پھر یہ ٹھوکر تمہیں کہاں سے لگ جاتی ہے کہ حقیقت سے پھرے جاتے ہو؟“ گویا ان کفار کو اس بات کا قطعاً انکار نہ تھا کہ ساتوں آسمان، زمین اور عرشِ عظیم کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ ہمیں بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ اللہ کے علاوہ اور کوئی پیدا کرسکتا ہے اور نہ اس کائنات میں کسی چیز کا مالک ہے، وہی اکیلا کائنات کا انتظام چلا رہا ہے۔ رِزق بھی وہی مہیا کرتا ہے۔ نیز آسمان سے بارش وہی نازل کرتا ہے۔ کھیتی وہی اُگاتا اور ہوا وہی چلاتا ہے۔ غرضیکہ ربوبیت کے جتنے لوازم ہیں ، ان میں کسی ایک پہلو سے بھی انہیں انکار ( نہیں تھا اور نہ ہی وہ ان تمام پہلوؤں میں کسی دوسرے الٰہ کو شریک کرتے تھے۔ اگر انہیں انکار تھا تو اس اقرار کے اس نتیجہ سے تھا جو اس اقرار کے بعد منطقی طور پر نکلتا ہے۔ اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ اگر کائنات میں تصرفِ اُمور کے جملہ اختیارات کا مالک اللہ ہے تو تمہارے ان معبودوں کے پاس حاجت روائی اور مشکل کشائی کے اختیارات کہاں سے آگئے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان سوال و جواب کے بعد لاحقہ کے طور پر ﴿أفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ… فأنّٰی تُسْحَرُوْنَ … فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ﴾ جیسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور پوچھا ہے کہ اس اقرار کے بعد اس کے نتیجہ سے کیوں گریز کی راہیں اختیار کرنے لگتے ہو اور تمہاری مت کیوں ماری جاتی ہے۔ مثلاً ایک دانہ کی پیدائش کے لئے زمین، پانی، ہوا، سورج سب کو اس کی خدمت میں حصہ رسدی ادا کرنا پڑتا ہے اوریہ سب چیزیں میرے قبضہ قدرت
Flag Counter