کاہن اور طرح طرح کے القاب سے نوازا گیا اور یہ مخالفت ہے بھی ناگزیر۔ کیونکہ نبی آتا ہی اس وقت ہے جب کوئی قوم اپنی عادت و اَطوار میں انحطاط پذیر ہوچکی ہو۔ لہٰذا نبی کی آمد پر حق وباطل کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ جب ہم انبیا کی دعوت پر غور کرتے ہیں تو سرفہرست عقیدۂ توحید اور انبیا کی اطاعت نظر آتی ہیں ۔ اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس عقیدۂ توحید کے وہ کون کون سے پہلو ہیں جو بناے مخاصمت بنتے رہے ہیں : ۱۔ اللہ کا ربّ العالمین ہونا ہم پہلے بتلاچکے ہیں کہ لفظ ربّ چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے (۱) تربیت کنندہ، خبررساں ، اِصلاح کنندہ اور کسی چیز کو تربیت کرکے حد کمال تک پہنچانے والا۔ (۲) آقا جو صرف تربیت کا ذمہ دار ہو (۳) مالک جو اپنی مملوکہ چیز میں تصرف کا پورا پورا حق رکھتا ہو اور (۴) بمعنی قانون دہندہ یعنی اس کے احکام کی تعمیل مملوکہ چیز پر لازم ہو۔ اب اگر ان معانی کو مزید مختصر کیا جائے تو صرف دو مفہوم باقی رہ جاتے ہیں : (۱) تربیت کرنے اور جملہ ضرورتوں کا خیال رکھنے والا (۲) ایسا مالک جس کی اطاعت لازم ہو۔ اب دیکھئے جہاں تک پہلے مفہوم کا تعلق ہے۔کفار اور مشرکین کو اس کے اقرار میں سرمو اِختلاف نہ تھا۔ قرآن میں ان لوگوں کے اقرار کو یوں بیان کیا گیا ہے: ﴿قُلْ لِمَنِ الأرْضُ وَمَنْ فِيْهَا إنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ أفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ أفَلَا تَتَّقُوْنَ قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلُکُوْتُ کُلِّ شَيْیٴٍ وَهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ قُلْ فَأنّٰی تُسْحَرُوْنَ﴾ (المومنون:۸۴ تا ۸۹) ”اے پیغمبر! ان سے کہو کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ کس کی ملک ہے؟ بتاؤ، اگر تم جانتے ہو۔ کہیں گے کہ وہ اللہ کی ملک ہے، کہو: پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟ پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا ربّ کون ہے، وہ کہیں گے اللہ، کہو: پھر بھی تم نہیں ڈرتے۔پوچھو : ہر چیز پر شاہانہ اختیارات کس کے ہیں اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا؟ فورا ً کہہ دیں گے کہ ایسی بادشاہی تو اللہ ہی کی ہے کہو پھر تم پر جادو کہاں سے چل جاتا ہے“ ﴿قُلْ مَنْ يَرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ أمَّنْ يَمْلِکُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمَنْ يُدَبِّرُ الأرْضَ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ فَقُلْ أفَلاَ تَتَّقُوْنَ فَذٰلِکُمُ اللّٰهُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إلاَّ الضَّلَالُ فَأنّٰی تُصْرَفُوْنَ﴾( یونس:۳۱، ۳۲) |