Maktaba Wahhabi

36 - 71
کا واسطہ ہوتا ہے، ایک مستقل فن کی حیثیت اختیار کرگیا جس کا مقصد محض لوگوں کو تنگ کرکے اور انہیں نقصان پہنچا کر اپنی ہیبت کا سکہ جمانا ہوتا ہے۔ جادو جادو کا علم بھی حضرت سلیمان علیہ السلام (۹۵۰ ق م) سے بہت پہلے ایجاد ہوچکا تھا۔ اورآپ کے زمانہ میں یہ فن اپنے انتہا ئی عروج پر تھا۔ اس کے آغاز کی تاریخ کا تعین تو مشکل ہے تاہم اس کی قدامت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ جو نبی بھی معجزہ لے کر آیا تو منکروں نے اسے جادو قرار دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سب کو منکروں کی زبان سے ’ساحر‘ کا الزام سننا پڑا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے تھے توجادوگروں نے یہ الزام لگایا کہ ان کی حکومت بھی جادو کے سہارے قائم ہے۔ جادو کو قرآن نے صریح کفر قرار ( دیا ہے اور اس کا مقصد واشگاف لفظوں میں بتلایا ہے کہ وہ محض ایذا رسانی ہے، اس میں بھلائی کا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔ارشادِ باری ہے: ﴿وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَايَنْفَعُهُمْ﴾(البقرة:۱۰۲) ”اور وہ لوگ کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے تھے۔“ اور حدیث میں جادو کو واضح طور پر شرک قرار دیا گیا ہے۔ سنن نسائی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: عن أبی هريرة قال رسول اللَّه صلی اللَّہ علیہ وسلم : من عقد عُقدة ثم نفثها فيها فقد سحر ومن سحر فقد أشرک ومن تعلق شيئا وُکّل به “ (کتاب المحاربہ، باب الحکم فی السحرة) ” رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص گرہ ڈال کر اس میں پھونک مارے، اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا، اس نے بلا شبہ شرک کیا اور جس نے گلے میں کچھ لٹکایا تو وہ اسی پر چھوڑ دیا جائے گا۔“ اس حدیث سے معلوم ہواکہ جادو کے شرک ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ علاوہ ازیں مشکوک تعویذ لٹکانا بھی گناہِ کبیرہ ہے کیونکہ اس طرح وہ شخص اللہ کی حفاظت کے بجائے اس تعویذ سے حفاظت چاہتا ہے تو خدا اس کی حفاظت چھوڑ دیتا ہے۔ کہانت کاہن علم غیب کی خبریں بتلاتے ہیں ۔ان کا تعلق بھی شیطانی روحوں اور جنات سے ہوتا ہے اور چونکہ انبیاء و رسل بھی بعض غیب کی خبریں بتلاتے ہیں لہٰذا ان مقدس ہستیوں پر ’کاہن‘ کا الزام بھی لگایا
Flag Counter