٭ سوال:فرض نماز کے بعد اگر کوئی شخص دعا کرنے کی اپیل کرے تو کیا امام اور مقتدی اجتماعی دعا کرسکتے ہیں ۔ نیز نما زِجمعہ کے بعد اجتماعی دعا کرنا کیسا ہے؟ (محمد شاہد، حجرہ شاہ مقیم) جواب:کسی پیش آمدہ مسئلہ کی بنا پر اجتماعی دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، صحیح بخاری میں ہے : فرفع رسول اللَّه صلی اللَّہ علیہ وسلم يديه يدعو ورفع الناس أيديهم مع رسول اللَّه صلی اللَّہ علیہ وسلم يدعون (باب رفع الناس أيديهم مع الإمام فی الاستسقآء) ”پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھایا تو لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ نبی کریم کے ساتھ دعا کے لئے بلند کرلئے۔“ اس کے لئے وقت کا کوئی تعین نہیں ، چاہے فرض نماز کے بعد ہو یا جمعہ کی نماز کے بعد۔ اور اگر فرض نماز اور جمعہ کے بعد طریقہ مسنونہ سمجھ کراجتماعی دعا کی جائے تو یہ سنت سے ثابت نہیں ۔ ٭ سوال:’صلوٰة المسلمین‘ میں مختلف احادیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ امام رکوع سے سر اُٹھاتے وقت اللّٰهم ربنا ولک الحمد بھی بلند آواز سے کہے۔ کیا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ امام مذکورہ الفاظ سری طور پر کہہ سکتا ہے؟ جواب:مذکورہ الفاظ امام کو ’سری‘ کہنے چاہئیں چنانچہ صحیح بخاری میں رفاعہ بن رافعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو سمع اللَّه لمن حمده کہا۔پیچھے ایک آدمی نے کہا: ربنا ولک الحمد…الخ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ابھی یہ کلمات کس نے کہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں نے، آپ نے فرمایا: میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا ہے، وہ اس کوشش میں تھے کہ کون پہلے اس نیک عمل کو لکھتا ہے۔ “ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس ذکر کو جہری پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا طریقہ نہ تھا، اگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس ذکر کو جہری پڑھتے تو اس صحابی کی آواز سب کی آواز سے نمایاں نہ ہوتی۔ یہ سنت قولی تقریری ہے، اس کا تعلق بھی فرائض سے ہے لہٰذا سری پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ۔ ٭ سوال:سورة السجدہ (آیت ۱۱) میں ’ملک الموت‘ کا ذکر ہے، اسی طرح مسند احمد میں حدیث براء رضی اللہ عنہ اور صحیح مسلم میں فضائل موسیٰ علیہ السلام میں بھی ’ملک‘ کا تذکرہ ہے۔ بعض مفسرین نے ان کا نام عزرائیل نقل کیا ہے ، کیا صحیح حدیث میں ملک الموت کا نام عزرائیل ثابت ہے یا پھر ملک الموت ہی کہنا چاہئے؟ جواب:ملک الموت کا نام صحیح مرفوع متصل حدیث سے تو عزرائیل ثابت نہیں ، البتہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر القرآن العظیم (۳/۵۹۹) میں فرماتے ہیں : الظاهر من هذه الاٰية أن ملک الموت شخص معين من الملائکة کما هوالمتبادر من حديث البراء المتقدم ذکره فی سورة إبراهيم وقد سمي فی بعض الاٰثار |