في الصلوة؟ قال: کان يشير بيده ”ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحالت ِنماز لوگوں کے سلام کا جواب کس طرح دیتے تھے؟ کہا :ہاتھ کے اشارے سے۔“ صاحب ِمرعاة المفاتیح فرماتے ہیں : والحديث فيه دليل علی جواز ردّ السلام فی الصلوٰة بالإشارة وهو مذهب الجمهور واختلف الحنفية فمنهم من کرهه، ومنهم الطحاوي ومنهم من قال لا بأس به (مرعاة المفاتیح: ۲/۱۲) ”اس حدیث میں اس امر کی دلیل ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارہ سے ہونا چاہئے اور اس بارے میں احناف کا آپس میں اختلاف ہے۔ بعض نے اسے ناپسند کیا مثلاً طحاوی اور بعض کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ۔ “ بلاشبہ دلائل کے اعتبار سے جواز کا پہلو راجح ہے۔تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو: المرعاة: ۲/۱۲ ٭ سوال:ظہر اور عصر سے قبل چار رکعت سنت، ایک سلام سے پڑھنا کیسا ہے؟ جبکہ حدیث میں ہے (۱) قال رسول اللَّه صلی اللَّہ علیہ وسلم : صلوٰة الليل والنهار مثنیٰ مثنیٰ (ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ) (۲) کان النبی صلی اللَّہ علیہ وسلم يصلی قبل العصر أربع رکعات يفصل بينهن بالتسليم (صحیح سنن ترمذی : ۳۵۳) جواب:ظہر اور عصر سے پہلے چار رکعات اکٹھا پڑھنے کا جواز ہے۔ چنانچہ سنن ابوداود، نسائی اور ابن ما جہ میں حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ”میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: جس نے ظہر سے قبل چار رکعات اور اس کے بعد چار رکعات باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، اللہ اس پر آگ کوحرام کردیتے ہیں ۔ “ یہ حدیث مجموعی اعتبار سے صحیح ہے ۔ اسی طرح صحیح بخاری باب الرکعتین قبل الظہرکے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : أن النبی صلی اللَّہ علیہ وسلم کان لايدع أربعا قبل الظهر ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔“ حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ چار رکعتیں اکٹھی پڑھتے تھے۔ جبکہ سوال میں مذکور حدیث میں ہے کہ رات اور دن کی نماز دو دو رکعتیں ہیں اور صحیح بخاری میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی پر زور دیا ہے تو اس بارے میں اولیٰ بات یہ ہے کہ اس کو دو حالتوں پر محمول کیا جائے: بعض دفعہ آپ دو پڑھتے اور بعض دفعہ چار۔ چنانچہ فتح الباری (۳/۵۸) میں ہے : ”والأولی أن يحمل علی حالين: فکان تارة يصلی ثنتين وتارة يصلی أربعا“ |