سے زنا کررہا ہے جو اتنا گھناؤنا جرم ہے کہ کوئی دین دار اور بااخلاق آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا- آپ حیران ہوں گے کہ مغرب میں زنا کاری اور بدکاری کی سزا ایک ہزار روپیہ چوری کرنے سے بھی کم ہے- ہم خاموش تماشائی بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ہمارے علماء، مفتی اور حکمرانوں نے حالات سے صلح کرکے اس ساری صورت حال کو قبول کرلیا ہے- چنانچہ پانچویں رکاوٹ بھی ختم ہوگئی- چھٹی رکاوٹ تھی، اللہ کا ڈر اور جہنم کاخوف: ہم نے اپنے اولاد کو شروع سے ہی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت سے دور رکھا اور اس کے دل سے خوف خدا اور جہنم کا ڈر فراموش کردیا- آج صورت حال یہ ہے کہ نئی نسل کے نوجوان بیٹے کو مسجد کے رستے کا ہی پتہ نہیں ہے- ہاں اگر کبھی کبھار اس کاباپ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر اپنے ساتھ مسجد میں لے جائے تو ممکن ہے وہ نماز پڑھ لے، ورنہ اسے نہ مسجد کا پتہ ہے اور نہ وہ نماز کو جانتا ہے- اس طرح یہ مضبوط ترین رکاوٹ بھی پاش پاش ہوگئی- پھر ہم نے انہیں یہ درس دیا کہ تم مادر پدر آزاد ہو- جہاں چاہو گھومو، پھرو اور انہوں نے یہی کیا- آج دیکھئے کہ جو عورت 06 یا 07 سال اپنے بھائی ، باپ اور چچا کے ساتھ پردے کی حالت میں بھی باہر نکلنے سے حیا محسوس کرتی تھی، آج وہ باریک کپڑے زیب تن کرکے اور میک اپ کرکے بڑے فخر کے ساتھ سرعام بازاروں اور پارکوں میں تمام لوگوں کو دعوت گناہ دیتی پھرتی ہے- میں وہی کچھ لکھ رہا ہوں جو اپنے معاشرے میں دیکھتا ہوں - دنیا میں جتنے بھی ادیان ہیں ، قطع نظر اس کے کہ وہ صحیح ہوں یا باطل ہوں ، ان تمام ادیان میں ایک بات مشترک پائی جاتی ہے وہ یہ کہ کوئی عورت بن سنور کر اپنا حسن و جمال اور جوانی کا جادو لوگوں پر نہ چلائے- ایک دفعہ بیت المقدس کے دروازے پر یہ اعلان لکھا ہواپایا گیا کہ کوئی عورت زیب و زینت اختیارکرکے ننگے منہ اور باریک کپڑے پہن کر گرجا میں نہ آئے بلکہ عورتیں لمبے اورموٹے کپڑے پہن کر سادگی کی حالت میں گرجا میں آیا کریں - جب عورت نے اوپر اور نیچے سے کپڑا چھوٹا کرنا شروع کردیا یعنی آدھے بازؤں والی قمیص پہننے لگی او رپنڈلیوں سے اوپر تک شلوار پہننے لگی تو آہستہ آہستہ اس نے اپنے سارے کپڑے اتارنے شروع کردیئے حتی کہ سمندر کے کنارے پر پہنچ کر اس نے اپنے سارے کپڑے اتار پھینکے اور شرم و حیا کو خیر باد کہہ دیا- کیا یہ اس اکیلی نوجوان لڑکی کا قصور ہے اور کیا یہ صرف نوجوان لڑکے کا ہی گناہ ہے-ایک طرف اس کے اندر طبع شہوت کا طوفان، پھر شادی پر قدغنیں او ردوسری طرف بُرائی کی فطری کشش، پھر برہنہ لڑکیوں کے غول کے غول جو سربازاردعوت گناہ دے رہی ہیں - آپ کاکیاخیال ہے آخر کب تک وہ اپنے آپ کو ایسے ماحول میں بچا کر صبر سے کام لیتا رہے گا؟ ایسے ماحول میں وہ نوجوان اپنے سبق اور کتاب پرکیسے توجہ دے گا-حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑا مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے اس کی اصلاح اور علاج کے لئے تو سارے معاشرے، حکومت، تمام قوموں ، اہل علم، اصحاب قلم اور خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیمیوں کو مل جل کر کام کرناچاہئے- |