آدمی ایسے فلمی اداکاروں کے اخلاق و کردار کا مطالعہ کرے گا، تو اس کے ذہن پر بھی ویسے ہی بُرے اثرات مرتب ہوں گے- آ ج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلمیں دیکھنے کی وجہ سے چھوٹے بچوں میں بھی وہی حرکتیں آگئی ہیں ، جو وہ فلموں میں نظارہ کرتے ہیں او رہم نے اس بات کو بالکل فراموش کردیا ہے کہ گناہ کی تشہیر کرنا اسلام کی نظر میں دوسرا بڑا جرم ہے، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گناہ کے مرتکب ہونے والے کو اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے اور اللہ سے توبہ و استغفار کا حکم دیا ہے- لیکن دیکھئے، آج فلموں میں بے حیائی اور فحاشی کا کردار ادا کرنے والے کس قدر ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اپنے گناہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر باعث شرم بات یہ ہے کہ فلموں میں کام کرنے والی عورتیں اپنی بدکاری اور زناکاری کو اپنے باعث فخر سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم نے بڑی عزت حاصل کی ہے- گویا وہ بے غیرتی کو اپنے لیے عزت قرار دیتی ہیں - میں نے شام کی دو ادیب لڑکیوں کا قصہ پڑھا، ان میں سے ایک نے اپنے کالم میں اپنے عاشق کا تذکرہ کیا ہے، جس کے ساتھ اس نے عقد شرعی کے بغیر خفیہ تعلقات قائم کررکھے تھے، ان کا نام 'جارج` اور اس کی معشوقہ جو اس سے بھی بے شرم اور بے حیا تھی، اس کا نام 'فردوموسہ` تھا-بہرحال ہمارے اس طرز عمل سے تیسری رکاوٹ بھی ختم ہوگئی- چوتھی رکاوٹ بیماری کاڈر اور خوف تھا: ڈاکٹر حضرات آئے اور انہوں نے برملا کہاکہ زنا کاری و بدکاری کی وجہ سے بیمار ہونے والو! ہمارے پاس آؤ، ہم تمہارا علاج کریں گے، ان بیماریوں سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں - ہمارے پاس پنس لین، ٹیرامائسین اور ابلی سین جیسےٹیکے موجود ہیں ، جنہیں لگاتے ہی مریض ٹھیک ہوجاتا ہے- ان کے علاوہ اور بھی ایسی ادویات ہمارے پاس موجود ہیں جوان امراض کے لیے نہایت ہی مفید ہیں - جب بھی تمہیں زناکاری او ربدکاری کی وجہ سے کوئی بیماری لگے تو تم ہماری خدمات حاصل کریو، ہم تمہارا علاج کرکے تمہیں ٹھیک کردیں گے اور اگر کوئی عورت زنا کی وجہ سے حاملہ بھی ہوگئی ہو تو کوئی بات نہیں ، ہم بغیرتکلیف کے اس کا حمل ضائع کردیں گے او رکسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہوگی- چنانچہ میڈیکل کی اس ترقی سے بیماری کا ڈر اور رسوائی کا خوف بھی دور ہوگیا- پانچویں رکاوٹ تھا حکومت کاڈر اور تعزیرات کا خوف: واقعہ یہ ہے کہ جب حکومت امرباالمعروف و نہی عن المنکر کا شرعی فریضہ ادا کرے اور شریعت محمدی کے مطابق فیصلے کرے اور شرعی تعزیرات و حدود کو نافذ کرے تو یقیناً جرائم نہ ہونے کے برابر ہوں گے، لیکن اگر اسلامی قانون اور شرعی تعزیرات کو چھوڑ کر مغربی قوانین کا سہارا لیا جائے جیسا کہ آج کل اکثر اسلامی ممالک میں ہورہاہے تو جرائم پر قابو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے- کیونکہ مغربی قوانین کی حالت یہ ہے کہ اگر ایک سطر کا قانون ہے تو بعد میں اس میں دو صفحے کی ترمیم ہوگی- مغربی قانون میں اگر زنا عورت کی رضا مندی سے کیا جائے تو نہ کوئی مقدمہ ہوگا اور نہ کوئی سزا ہوگی اور یہ مغربی قانون کی نحوست ہے کہ مغرب میں بیٹا، ماں سے او رباپ بیٹی |