Maktaba Wahhabi

44 - 72
اسلام اور مغرب مولانا زاہد الراشدی، گوجرانوالہ ابن مولانا سرفراز خاں صفدر دینی مدارس اور بنیادپرستی دینی مدارس … پس منظر اور مقاصد پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے دینی مدارس ومکاتب کاموجودہ نظام ۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کانتیجہ ہے۔ اس سے قبل پورے برصغیر میں درسِ نظامی کا یہی نصاب تعلیمی اداروں میں رائج تھا جو مغل بادشاہت کے دور میں اس وقت کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کرمرتب کیا گیا تھا اور جو اَب بھی ہمارے دینی مدارس میں بدستور رائج چلا آرہا ہے۔ فارسی اس دور میں سرکاری زبان تھی اور عدالتوں میں فقہ حنفی رائج تھی، اس لئے درسِ نظامی کا یہ نصاب اس دور کی دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کرتا تھا اور دینی تقاضوں کی تکمیل بھی اس سے ہوجاتی تھی۔ اس لئے اکثر و بیشتر مدارس کا نصاب یہی تھا اور تقریباً تمام مدارس سرکار کے تعاون سے بلکہ سرکار کی بخشی ہوئی زمینوں اور جاگیروں کے باعث تعلیمی خدمات سرانجام دیتے چلے آرہے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد جب دہلی کا اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی سے براہِ راست تاجِ برطانیہ کو منتقل ہوا اور باقاعدہ انگریزی حکومت قائم ہوگئی تو سرکاری زبان فارسی کی بجائے انگریزی کردی گئی اور عدالت سے فقہ حنفی کوخارج کرکے برطانوی قوانین نافذ کردیئے گئے، جس سے ہماری تعلیمی ضروریات دو حصوں میں منقسم ہوگئیں ۔ دفتری اور عدالتی نظام میں شرکت کے لئے انگریزی تعلیم ناگزیر ہوگئی اور دینی و قومی ضروریات کے لئے درسِ نظامی کے سابقہ نظام کو برقرار رکھنا ضروری سمجھا گیا، جبکہ مدارس و مکاتب کا سابقہ نظام ختم کردیا گیا۔ علماء کی ایک بڑی تعداد جنگ ِآزادی میں کام آگئی، باقی ماندہ میں سے ایک کھیپ کالا پانی اور دیگر جیلوں کی نذر ہوگئی اور پیچھے رہ جانے والے لوگ شکست کے اثرات کو سمیٹتے ہوئے مستقبل کے بارے میں سوچنے میں مصروف ہوگئے۔ مدارس و مکاتب کے لئے مغل حکمرانوں کی عطا کردہ جاگیریں چھین لی گئیں اور اس طرح ۱۸۵۷ء سے پہلے کا تعلیمی نظام مکمل طور پر تتر بتر ہوکر رہ گیا۔ نئے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کے دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد اہل
Flag Counter