بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ تہذیب جدیدکے فتنے تحریر: شیخ علی طنطاوی، مصر (قسط نمبر2) مترجم: عبدالمالک سلفی ارحموا الشباب نئی نسل پررحم کی فریاد ! اسلامی ممالک کی صورت حال عام طور پر یہ ہے کہ مغرب کی تقلید میں انہوں نے بھی تعلیم کے لیے مخلوط کالج اور یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بنا لیے جن میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے اور رہتے سہتے ہیں - پارکوں میں وہ جس طرح ایک دوسرے کے ساتھ بیہودہ اور فحش حرکات کرتے ہیں ، وہ یقیناً ایک مسلم معاشرے کے لیے باعث شرم اور نہایت قابل مذمت ہے- آپ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات نوجوان لڑکیاں اتنا باریک لباس پہنچتی ہیں کہ ان کاسارا جسم اندر سے دکھائی دیتا ہے-پھر ہم کہتے ہیں کہ اس نے ابھی ریاضی کے مشکل ترین مسائل حل کرنے ہیں ، کیمیا گری کے فنون سیکھنے اور کتابوں کی شروحات کامطالعہ کرناہے- اےعقل کے اندھے اس بات کو اپنے ذہن میں سوچ کہ اس نوجوانی کی عمر میں تیری نوجوان بیٹی کیا چاہتی ہے- ہم نے اس اختلاط باہمی کوسفر و حضر، سکول و کالج، نہروں کے کناروں ، پارکوں کے سبزہ زار او رپہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچا دیا او رہم نے اس چیز کو تہذیب و تمدن، ثقافت اور کلچر کاخوشنما نام دے دیا-چنانچہ اس طرح دوسری رکاوٹ بھی ختم ہوگئی- تیسرے رکاوٹ بدنامی اور رسوائی کاڈر تھا: لیکن ہماری حالت رفتہ رفتہ تبدیل ہوتی گئی-بالآخر نوجوان طبقہ اس حد تک پہنچ گیا کہ انوہں نے گناہوں پر شرمسار ہونے کی بجائے ایسی عادتوں پر فخر وغرور کرناشروع کردیا اورنیک باز لڑکے لڑکیاں ان میں نکو بن گئے- حالانکہ ایک وہ وقت تھا کہ لوگ گناہ کرکے شرمسار ہوتے اور لوگوں سے اپنے گناہ کو چھپانے کی کوشش کرتے اور اگر ان سے اس بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ انکارکردیتے جبکہ آج صورت حال یہ ہے کہ ایسے فحش واقعات کو اخبارات، ڈائجسٹ اورناولوں کی زینت بنایا جاتا ہے اور عام طور پر ایسے لچر اور بیہودہ لٹریچر کو لوگ بڑے شوق سے خریدتے اور پڑھتے ہیں کیونکہ اس میں جنسی جذبات کو بھڑکانے والامواود ہوتا ہے- ایسا فحش لٹریچر جس قدر آج مارکیٹ میں دستیاب ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں تھا- رہی سہی کسر ہمارے معاشرے کے رائٹروں ، صحافیوں او رکالم نگاروں نے نکال دی- وہ اداکاروں اور اداکاراؤں کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور انہیں قومی ہیرو قرار دینے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیتے ہیں -میں نے کچھ عرصہ قبل ایک ایسے ادیب کے ایک کالم کا مطالعہ کیا، جو مجھ سے علم و فضل سے بہت آگے ہے- انہوں نے اپنے کالم میں ایک بدکار اداکار جو کہ مرچکا ہے، کی بڑی تعریف و توصیف کی ہے-ایک دوسرے ادیب نے ایک اور اداکار (آسکر ولڈ) کی بڑی لمبی چوڑی تعریف کی ہے- اب ظاہر بات ہے کہ جو |