Maktaba Wahhabi

69 - 70
اپنی اپنی امت کے لئے حاکم ، قاضی اور شارع کارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان سے خطاب فرمایا: ﴿ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِيْعَةٍ مِّنَ الأمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلاَتَتَّبِعْ أهْوَآءَ الَّذِيْنَ لاَيَعْلَمُوْنَ﴾ [1] ”اس کے بعد اے نبی! ہم نے آپ کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے۔لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے“ شریعت کی جو تفصیلات آپ لے کر آئے، اب قیامت تک ان میں کسی تغیر و تبدل کی ضرورت نہیں رہی۔ آپ دائمی و کامل شریعت کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں جسمیں جامعیت اور ہمہ گیری پائی جاتی ہے۔ آپ کی شریعت کے بعد کوئی شریعت نہیں ، لہٰذا آپ تمام شارعین کرام کے اِمام اور ’خاتم‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔فخر الدین رازی فرماتے ہیں : ”دلائل عقلیہ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دنیا وآخرت میں انسانی کمال یہ ہے کہ وہ حق کو جانے اور خیر کو پہنچانے تاکہ اس پر عمل پیرا ہوسکے۔ بہترین عمل دنیا سے منہ موڑ کر آخرت کی طرف توجہ کرناہے۔ انسانی امارت کا تعلق ان دونوں باتوں سے ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انبیا ءِ کرام پہلے انبیاءِ کرام کی شریعتوں کو منسوخ کرتے رہے۔ مگر یہ نسخ اصل میں مقصود نہیں ہوتا بلکہ کچھ امورِ زائدہ میں واقع ہوتا ہے۔‘‘[2] دوسری بات یہ ہے کہ بنیادی قواعد اور اُصولی باتوں میں شریعتوں کا باہم فرق نہیں ہے۔ فرق دراصل فروع اور زوائد میں ہے۔ رازی فرماتے ہیں : ”التفاوت فی الشرائع ما وقع فی هذه القواعد الشرعية والمهمات الأصلية وإنما واقع فی الفروع والزوائد[3] تکمیل شریعت … رازی کا تجزیہ و تبصرہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تکمیلی کام کے بارے میں تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ”انبیاء و رسل اَرواحِ بشریہ کا علاج کرتے ہیں اور ان کا رُخ غیراللہ سے موڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف کرتے ہیں ۔ انبیاءِ کرام میں سے جس درجے میں بھی ان فوائد کا گذرہوگا وہ اسی قدر عظیم اورکامل ہوگا۔ جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت بنی اسرائیل تک محدود تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کااثر بہت تھوڑے لوگوں پر ظاہر ہوا۔ نصاریٰ نے باپ بیٹا اور روح القدس کی تثلیث کا فاسد عقیدہ گھڑ کربدترین کفر کا ا رتکاب کیا اوریہ ان کی بدترین جہالت تھی۔ اوریہچیز کسی نبی کی پاکیزہ اور خالص دعوت سے بعید تر ہے۔ جبکہ ان کی دعوت خالص توحید و تنزیہ کے عقیدے پر مشتمل تھی۔ مجوسی دو خداؤں کی پوجا پاٹ کا غلط نظریہ رکھتے تھے اوربہنوں ، بیٹیوں کے ساتھ نکاح کو جائز سمجھتے تھے۔ صائبین کواکب پرستی کا شکار تھے اوربت پرست شجرو حجر کی پرستش میں مگن تھے“ ”ان حالات میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ توحید لے کر تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو
Flag Counter