استدلال کیا جاسکتا ہے بلکہ شیعہ حضرات کی بعض معتبر کتابوں سے ان کی ممانعت ثابت کی جاسکتی ہے لیکن اختصار کے پیش نظر ہم صرف دو فرمان نبوی پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں : ۱۔ قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوی الجاهلية (بخاری و مسلم) ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رخسار پیٹے، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کا واویلا کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے“ ۲۔قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم انا برئ ممن حلق وصلق وخرق (بخاری و مسلم) ”جو شخص سرمنڈوائے، بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے، میں اس سے بیزار ہوں “ لیکن اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی دن ۱۰/محرم کو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ۶۱ہجری کو کربلا کے میدان میں مظلوم شہید کئے گئے۔ اس واقعہ کا روزے کی فضیلت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ روزے کی فضیلت بہت پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے ثابت اور محقق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ تمام اہل اسلام کو کتاب و سنت پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اتحاد و اتفاق سے زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین) دس محرم کی فضیلت پر موضوع احادیث عموماً اکثر مسلمان صومِ عاشوراء کے بارے میں ان احادیث پر ہی تکیہ کرتے ہیں جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ، بے بنیاد و من گھڑت روایات پر عمل سے دور ہی رہتے ہیں مگر تعجب انگیز امر یہ ہے کہ عاشوراء کے سلسلے میں عوام تو درکنار، کئی ایک علماء اپنے خطبات اور تقریروں میں ایسی احادیث اور روایت کا ذکر کرتے ہیں جو اصلاً بے بنیاد اور باطل ہیں ۔ اس موقع پر ہمارا دینی فریضہ ہے کہ حتیٰ المقدور ہم اصل کو نقل سے علیحدہ کردیں ۔ یہاں ہم عاشوراء سے متعلق مشہور کردہ چند احادیث کا ذکر کریں گے۔ نیز اس پر محدثین اور فقہاء کی آراء بھی ذکر کریں گے تاکہ ہر مسلمان سنت اور غیر سنت میں فرق کرسکے۔ ٭ یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ من اکتحل بالاثمد يوم عاشوراء لم تدمع عينه أبدا ”جس نے یوم عاشوراء کو سرمہ لگایا، اس کوکبھی آنکھ کا درد لاحق نہیں ہوگا“ ابن قیم نے المنار میں کہا ہے کہ سرمہ اور عطر لگانے والی احادیث کذابین کی اختراع ہیں ۔امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے المقاصد الحسنة میں حاکم اور بیہقی کے اَقوال نقل کئے ہیں ۔ حاکم نے کہا کہ یہ حدیث منکر بلکہ موضوع ہے۔ ابن جوزی نے اسی سند کے ساتھ ’موضوعات‘ میں اس کا ذکر کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یومِ عاشوراء کو سرمہ لگانانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ یہ بدعت ہے جس کو قاتلین حسین نے رواج دیا ہے۔ ملا علی قاری نے بھی الأسرار المرفوعة میں اسی رائے کی موافقت کی ہے اور سیوطی کا حوالہ دیتے |