کے بارے میں بعض روایات میں ہے کہ خطبہ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرصدقہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ملاحظہ ہو فتح الباری، پھر بھی بہتریہ ہے کہ اس امرکو جمعہ کے بعد تک موٴخر کردیا جائے۔ ۵۔دراصل اس بات کا انحصار اہل مسجد کے رویہ پر ہے۔ اگر تو ان کا مقصود شریعت کے خلاف سازشیں کرنا اور مسلمانوں کی جمعیت میں افتراق و انتشار کا بیج بونا ہے جس طرح کہ مرزائیوں اور دیگر باطل پرست گروہوں کی عبادت گاہیں ہیں تویہ بلاشبہ ا س حکم میں داخل ہیں ۔ ۶۔بلاشبہ ہر صاحب علم کا اِحترام و اکرام مسلم ہے۔ حقدار کو اس کا حق ملنا چاہئے لیکن واقعہ کے خلاف فضول اَلقابات سے کسی کو نوازنا یا مبالغہ آرائی سے کام لینا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ مثلاً یوں کہا جائے خطیب ِمشرق ومغرب یا خطیب ِارض و سماء وغیرہ وغیرہ۔ بہرصورت اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں جوشیلی اور حواس باختہ فضاء میں اِصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ مصلحین کو آگے بڑھ کر یہ فرض ادا کرنا چاہئے۔ ہر دو کا اس میں ہی بھلا ہے ۔ معاشرہ میں اس حد تک بگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ بعض حریص او رلالچی مولوی اپنے پسندیدہ القاب لکھ کر لوگوں کے حوالے کرتے ہیں کہ ان آداب کے ساتھ جلسہ کا اشتہار شائع کراؤ جس میں میرا نام سب سے اوپر یا درمیان میں موٹا اورسب سے نمایاں ہونا چاہئے اور بعض حضرات جلسوں میں مخصوص اَفراد مقرر کرتے ہیں تاکہ وہ دورانِ تقریر حسب ِمنشا پسندیدہ نعروں سے ان کا پیٹ بھر سکے․ اس طرزِ عمل پرجتنا بھی افسوس کااظہار کیا جائے کم ہے ۔ ہمارے مقابلہ میں عربوں کا مزاج آج بھی سادگی پسند ہے، مبالغہ آرائی سے بے حد نفرت کرتے ہیں اور فضول اَلقاب سے کوسوں دور ہیں ۔ اللہ ربّ العزت ہم میں بھی صحیح سمجھ پیدا فرمائے تاکہ ہم دنیا وآخرت میں سرخرو ہوسکیں ۔ ۷۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوتاہی کا پہلو دونوں طرف میں پایا جاتا ہے۔ بعض جگہ انتظامیہ کو علماء تبدیل کرنے کا چسکا ہوتا ہے۔ قدم جما کر کسی کو کام کرنے کا موقع نہیں دیتے،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری چودھراہٹ اور قدروقیمت میں کمی واقع ہوجائے ۔ دوسری طرف بعض علماء بھی مسجد کو اپنی ذاتی جاگیر تصور کرتے ہیں جو خطرناک کھیل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ باہمی اعتماد سے طرفین فضا کو سازگار بنائیں تاکہ دعوتِ دین کے مقاصد کے حصول میں آسانی پیدا کرکے مسجدوں کی تاسیس و تعمیر اور ترقی کے مقصد اعلیٰ ﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ﴾کی حکمت کو پاسکیں اور سب سے بڑھ کر اس فرض کی ادائیگی علماءِ کرام اور انبیاء علیہم السلام کے وارثوں پر عائد ہوتی ہے کہ اس پر غور و فکر کریں ۔ مذکورہ مسجدمیں نماز توہو جائے گی لیکن مولوی صاحب کی اِصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہئے․ ۸۔اعتکاف بیسویں روزہ کی نمازِ فجر کے بعد بیٹھنا چاہئے ہمارے ہاں قصبہ سرہالی کلاں ضلع قصور میں |