Maktaba Wahhabi

37 - 80
نقل کیا ہے:"لا أعلم له حديثا منكرا إلا هذا" کہ عمر بن ہارون کی اس حدیث کے سوا کوئی حدیث میں نے منکر نہیں پائی اس کے بعد مزید لکھتے ہیں : "وقد ضعف عمر بن هارون مطلقأ جماعة " "(امام بخاری نے تو عمر بن ہارون کی صرف اس حدیث کو ضعیف قراردیا ہے مگر ) ایک جماعت محدثین نے اس کو مطلقاًضعیف کہا ہے" (یعنی اس کی کوئی حدیث بھی صحیح نہیں ) اسی طرح زرقانی شرح مواہب لدنیہ جلد 4ص212میں ہے ۔ "قال الذهبى : ضعفوه"امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔"عمر بن ہارون کو محدثین نے ضعیف کہا ہے"حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسماء الرجال (راویوں کے حالات) پر ایک بہت بڑی جامع کتاب لکھی ہے۔جس کا نام تہذیب التہذیب ہے۔اس میں ایک ایک راوی کے متعلق جتنے اقوال ہیں سب جمع کر دئیے ہیں اس کے بعد اختصار کر کے دوسری کتاب تقریب التہذیب لکھی۔ اس کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ میں ہر راوی کے متعلق اعدل قول لکھوں گا یعنی جس راوی کی ثقاہت میں اختلاف ہو اس کے حق میں پوری تحقیق کے بعد ایسا لکھوں گا جو نہایت منصفانہ ہو۔ اب عمر بن ہارون کے متعلق اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ سنئے : "عمر بن هارون بن يزيد، الثقفى مولاهم، البلخي ، متروك ، وكان حافظا" (تقریب التہذیب ص388) "بنی ثقیف بلخی کا آزاد کردہ عمر بن ہارون بن یزید متروک (ترک کردیا گیا ) ہے اور ویسے وہ حافظہ والا تھا" تقریب التہذیب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ متروک وہ راوی ہے جس کو کسی محدث نے ثقہ نہ کہا ہو اور اس کے ضعف کی وجہ بھی بیان کردی گئی ہو۔ ایسا راوی محدثین کی نظر سے بالکل گراہوا اور بے اعتبار ہو تا ہے اور اس کی حدیث کسی قابل نہیں ہوتی اور عمر بن ہارون کے متعلق امام بخاری نے جو اچھی رائے کا اظہارکیا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ اس کو ئی حدیث اس حدیث کے سوا بے اصل نہیں پائی گئی۔ گویا دوسرے محدثین سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے حق میں کچھ نرم ہیں کیونکہ دوسرے محدثین اس کی ساری حدیثوں کو ضعیف کہتے ہیں اور امام بخاری صرف اس حدیث کو اور وجہ اس کی یہ ہے کہ امام بخاری کو جو اس کی احادیث پہنچی ہیں وہ کسی دوسری سند سے بھی مروی ہیں سوااس حدیث کے دوسرے محدثین کو اس حدیث کے سوا اس کی کچھ احادیث بھی بے اصل مل گئیں اس لیے یہ بالکل ان کی نظر سے گرگیا بہر صورت یہ حدیث متفقہ طور پر محدثین کے نزدیک ناقابل عمل ہے اور اس سے مٹھی سے چھوٹی داڑھی پر استدلال کرنا بالکل غلط ہے۔ بعض تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال: جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا مذہب قریباً معلوم
Flag Counter