اس حدیث میں داڑھی کے طول و عرض سے لینے کا ذکر ہے مگر تحدید نہیں کہ کہ کتنی لیتے؟مٹھی سے باہر یا مٹھی سے اندر اور اسی لحاظ سے ہم نے اس حدیث پر چوتھی صورت کا عنوان تو دیا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ چوتھی صورت ثابت نہیں جس کی تین و جہیں ہیں ۔ (1)اول:یہ کہ احادیث میں مٹھی سے زائد کی تعیین آگئی ہے۔ بس اس سے مراد یہی مٹھی سے زائد ہی ہو گی ۔چنانچہ دوسری تیسری صورت میں تفصیل گزرچکی ہے پس یہ چوتھی صورت نہ بنی بلکہ دوسری تیسری میں شامل ہو گئی۔ اسی بنا پر مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد 4ص492میں لکھتے ہیں ۔ "وقيد الحديث في شرح الشرعة بقوله : إذا زاد على قدر القبضة " یعنی" شرح شرعیہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طول و عرض میں اس وقت لیتے جب بال مٹھی سے زائد ہو جا تے " (2)دوسری وجہ یہ کہ مرقاۃ شرح مشکوۃ میں مذکور عبارت کے بعد لکھتے ہیں ۔ الْحَدِيثُ فِي شَرْحِ الشِّرْعَةِ بِقَوْلِهِ: إِذَا زَادَ عَلَى قَدْرِ الْقُبْضَةِ، وَجَعَلَهُ فِي التَّنْوِيرِ مِنْ نَفْسِ الحديث یعنی" کتاب تنویر میں لفظ إِذَا زَادَ عَلَى قَدْرِ الْقُبْضَةِ، کو اس حدیث کا ٹکڑا قراردیا ہے " پس جب اسی حدیث ہی میں مٹھی کی شرط آگئی تو بات بالکل ہی صاف ہو گئی۔ (3)تیسری وجہ یہ ہے کہ ترمذی کی یہ حدیث ہی بالکل ضعیف ہے چنانچہ امام ترمذی یہ حدیث ذکر کر کے فرماتے ہیں ۔ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ .و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ : عُمَرُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ ، أَوْ قَالَ : يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ .ا.ه. وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ ،يَقُولُ : عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ ، وَكَانَ يَقُولُ : الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ "یہ حدیث غریب (ہے کیونکہ اس میں عمر بن ہارون راوی منفرد) ہے اور امام بخاری سے میں نے یہ کتنے سنا کہ عمر بن ہارون کی حدیث کسی قدر اچھی حدیث کے قریب قریب ہوتی ہے۔ میں نے اس کی کوئی حدیث بے اصل یا منکر نہیں پائی سوائے اس حدیث کے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ عمربن ہارون کے سوا کسی نے اس حدیث کو روایت کیا ہوا اور امام بخاری کو میں نے دیکھا کہ وہ عمربن ہارون کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے اور قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے سنا :وہ فرماتے تھے کہ عمر بن ہارون کے پاس ذخیرہ حدیث کا فی تھا مگر اس کا مذہب تھا کہ ایمان صرف قول اور عمل کا نام ہے۔یعنی ایمان کے لیے اعتقاد کی ضرورت نہیں ۔ اور یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ قول اور فعل ایمان میں داخل ہیں جیسے اہل حدیث کا مذہب ہے مگر یہ مراد کمزورہے کیونکہ عربی عبارت میں صرف یہی ہے کہ ایمان قول و عمل ہے۔" حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری جلد10ص288میں ترمذی کے حوالہ سے پہلے امام بخاری کایہ قول |