Maktaba Wahhabi

63 - 64
راقم الحروف کی نگاہ سے اس تحریک کے نظریات کے خلاف ناقدانہ جائزہ پر مشتمل متعدد کتابیں گزری ہیں ۔ ان میں فرڈینڈ لنڈبرگ اور میری فارناہم کی مشترکہ کتاب "Modern woman -the lost sex" یعنی ’’جدید عورت، صنف ِگم گشتہ‘‘بہت اہم ہے …اس کتاب میں نہایت تفصیل کے ساتھ تحریک ِنسواں کے عوامل، ارتقا، نظریات اور منفی اثرات کا محققانہ اور عالمانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مصنّفین نے تحریک ِنسواں کی علمبردار عورتوں کو مردانہ صفات کی حامل (Manly-women) اور اعصابی اختلاج میں مبتلا قرار دیتے ہوئے انہیں یورپی معاشرے میں بے چینی اور ناراحتی کا بڑا سبب قرار دیا ہے۔۱۹۹۳ء میں شائع ہونے والی کتاب "No more sex war" کے مصنف نیل لائنڈن نے تحریک ِنسواں کی غیر منطقی، غیر متوازن فکر اور اسکے منفی اثرات کو واضح کیا ہے۔ رونالڈ فلیچر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی ایک کتاب کا عنوان ہے: "The abolitionists: the family and marriage under attack." ترجمہ:’’استیصالیت پسند، خاندان اور شادی، حملہ کی زد میں ‘‘ اس محققانہ تالیف میں رونالڈ فلیچر نے مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی کے ذمہ دار مختلف مکاتب ِفکر بالخصوص تحریک ِنسواں کی معروف خواتین کے افکار کا ناقدانہ جائزہ لے کر ان کی بھرپور مذمت کی ہے اور خاندانی نظام کی بحالی و تحفظ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس نوعیت کی متعدد دیگر کتب، مضامین و رسائل ہیں ، طوالت کی بنا پر ان کا تذکرہ ممکن نہیں ہے۔ مغرب کی تحریک ِآزادی ٔ نسواں کی علمبردار خواتین کے اَحوال و ظروف اور ان کے افکار و نظریات کا معروضی اور مفصل مطالعہ کرنے کے بعد راقم الحروف کی رائے میں یہ تحریک سرے سے عام عورتوں کی تحریک ہی نہیں ہے۔اس تحریک کی علمبردار خواتین کو اس اعتبار سے’عورت‘ کہنا بھی محل نظر ہے، جس اعتبار سے اس لفظ کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم ہمارے ذہنوں میں ہے۔ حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی عورتوں کو ’نازن‘ قرار دیا۔ ان کا ایک معروف شعر ہے ؎ جس علم کی تاثیر سے زَن ہوتی ہے نازَن کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ ہنر موت سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی عورتوں کے لئے ’مکشوفات‘ کی ترکیب استعمال کی۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی معرو ف کتاب ’’پاکستانی عورت، دوراہے پر‘‘ میں مردانہ صفات کی حامل ان عورتوں کو ’مترجلات‘ کا نام دیا۔ یعنی وہ عورتیں جو عورت کی بجائے رجلبننے میں زیادہ د لچسپی رکھتی ہوں ۔ اس تحریک کو تحریک ِنسواں کی بجائے ’’تحریک ِنازَن‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ مسلمان عورتوں کے لئے ’’تحریک ِنازَن‘‘ کا اتباع نہ صرف ان کے لئے اَخلاقی گمراہی کے گہرے غار میں گرنے کا باعث بنے گا، بلکہ ایک اسلامی معاشرے کو اَخلاقی زوال اور سماجی انتشار سے بالکل اسی طرح دو چار کردے گا جیسا کہ ہم یورپ کے معاملے میں دیکھ رہے ہیں ۔ مگر پاکستان میں مغرب زدہ بیگمات کی ایک محترک اقلیت عورتوں کے حقوق کے فریب انگیز دعوے کے پردے میں یورپ کی ’’تحریک ِنازن‘‘ کو برپا کرنے کی کاوش میں مصروف ہے۔ وہ جن حقوق کی بات کر رہی ہیں اگر ان کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا منطقی نتیجہ جنسی بے راہ روی اور مرد وزَن کے آزادانہ اِختلاط کے سوا کچھ اور نہیں نکلے گا۔
Flag Counter