فتنۂ مغربیت محمد عطاء اللہ صدیقی ( تحریک ِ نسواں … نظریات و اَثرات ۸/ مارچ کو ہر سال عالمی سطح پر خواتین کا دن منایا جاتا ہے۔ تحریک ِآزادی نسواں کی علمبردار خواتین بے حد جوش و خروش سے جلسے جلوس کا اہتمام کرتی ہیں ۔ ذرائع ابلاغ بھی اس دن کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ پاکستان میں نسوانی حقوق کی علمبردار مغرب زدہ بیگمات اور این۔جی۔اوز کا نیٹ ورک اس دن کومنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کرتا ہے۔ ہمارے ذرائع اَبلاغ عام طور پر اس نام نہاد تحریک آزادی ٔ نسواں کا صرف وہی رخ پیش کرتے ہیں جو مغربی میڈیا یا اس تحریک کی پرجوش مبلغات دکھانا چاہتی ہیں ۔ اس تحریک کے اصل اسباب و عوامل پر نہ تو روشنی ڈالی جاتی ہے اور نہ ہی اس تحریک کے منفی اثرات و مضمرات کا ناقدانہ جائزہ لیا جاتا ہے۔ درج ذیل سطور میں اس تحریک کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گذشتہ تین صدیوں کے دوران یورپ میں سر اٹھانے والی بیشتر فکری تحریکوں مثلاً سیکولرازم، لبرل ازم، سوشلزم، فاشزم اور پھر تحریک ِنسواں (Feminism) میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان تحریکوں کی بنیاد نفرت کے جذ بات پر رکھی گئی۔ انہوں نے کسی ایک مبینہ ظالم کی نشان دہی کی اور پھر اس کے خاتمے کے لئے بھرپور جدوجہد شروع کردی۔ اشتراکیوں کے نزدیک نجی جائیدار اور اس کے مالکان اصل ’مجرم‘ تھے۔فشار پسندوں (Anarchists) کے نزدیک ریاست ہی سب سے بڑا ظالمانہ اور جابرانہ ادارہ ہے جو فرد کی خوشیوں کا قاتل ہے لہٰذا اسے نہیں ہونا چاہئے۔ فاشسٹوں کے خیال میں لبرل پارلیمانی جمہوریت ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ یورپ کے نسل پرستوں (Racists) کی رائے میں یہودی بطور قوم ان کی معاشی پریشانیوں کا اصل سبب تھے، اس لئے انہوں نے یہود کشی کو ان مسائل کا حل بتلایا۔ بقول فرڈیننڈ لنڈ برگ عورت پسندوں (Feminists)کے نزدیک تقریباً نصف انسانی نسل یعنی مرد ہی ظالم ہے، لہٰذا انہوں نے انکے خلاف محاذ کھول لیا۔ یورپ میں تحریک ِآزادی ٔ نسواں کا باقاعدہ آغاز فرانسیسی انقلاب کے فوراًبعد ہوا۔ فرانسیسی انقلاب کے مفکرین کے نزدیک مساواتِ مرد و زن کا کوئی تصور نہ تھا۔ ان کی پیش کردہ ’مساوات‘ کے نعرے آزاد اور جائیدار رکھنے والے مردوں کے سیاسی حقوق تک ہی محدود تھے۔ روسو جیسا حریت و مساوات کاعلمبردار عظیم فلاسفر بھی عورتوں کو مساوی حقوق دینے کے خلا ف تھا۔ ۱۷۸۹ء میں فرانس کی انقلابی اسمبلی میں ایک رکن کانڈور سیٹ (Condorcet) نے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا کہ شہریوں کے حقوق میں عورتوں کو بھی شامل کیا جائے۔ جس کے نتیجے میں اسے باغی قرار دے کر پھانسی دے دی گئی۔ مگر فرانسیسی انقلاب نے حریت ِفکر کا جو الاؤ گرم کیا تھا، اس کی تپش جلد ہی انگلش چینل کے پار بھی محسوس کی جانے لگی۔ ۱۷۹۲ء میں ایک انگریز خاتون میری وولٹسن کرافٹ نے ’’ونڈی کیشن(Vindication) آف دی رائٹس آف وومن‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر پہلی دفعہ بھرپور استدلال کے ساتھ عورتوں کے مساوی حقوق |