Maktaba Wahhabi

59 - 64
کی بات کی۔ میری وولٹسن کرافٹ کو تحریک ِآزادی نسواں کا بانی اور اس کی کتاب کواس تحریک کے ’بائبل‘ ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ میری کرافٹ کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ عورتیں مردوں کے مشابہ ہیں ، اسی لئے انہیں یکساں تعلیم، یکساں سیاسی حقوق (ووٹ) کام کرنے کے یکساں مواقع اور ان کے لئے یکساں اَخلاقی ضابطے وضع کئے جائیں ۔ لنڈبرگ کے خیال میں میری کی کتاب صرف ایک سحر انگیز رومانوی لفظ ’مساوات‘ کے گرد ہی گھومتی تھی۔ عورت کے فطری فرائض کو پیش نظر رکھا جائے تو اس کا اصل مقام اس کا گھر ہے۔ جنگ ِعظیم دوم سے قبل یورپ میں بھی اکثریتی رائے یہی تھی ۔ مگر مشرق و مغرب میں ہر زمانے میں عورتوں کی ایک محدود تعداد ایسی ضرور رہی ہے جسے چراغِ خانہ کی بجائے شمع محفل بننے میں زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ گھر سے باہر کی زندگی انہیں بے حد پرکشش دکھائی دیتی ہے۔ ایسی عورتیں مردانہ اوصاف کی حامل ہوتی ہیں اور مردانہ فرائض کی ادائیگی میں انہیں یک گونہ مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ صنعتی انقلاب نے ایسی عورتوں کے لئے گھر سے باہر نکلنے کے شاندار مواقع فراہم کئے۔ یہی وہ ابنارمل عورتیں تھیں جنہوں نے مساواتِ مرد و زن کے غیر فطری تصور کو بالآخر ایک جذباتی تحریک کی شکل دے دی۔ رفتہ رفتہ اس تحریک کی قیادت ایسی عورتوں کے ہاتھ میں آگئی کہ جن کا اصل نصب العین جنسی آزادیوں کا حصول ہی رہ گیا۔نسوانیت اور شرم و حیا ان کے خیال میں محض دقیانوسی خیالات تھے، جن کا مقصد عورت کو مستقلاً مرد کی غلامی میں جکڑ کر رکھنا تھا۔ فرڈیننڈ لنڈ برگ اپنی معروف کتاب ’’جدید عورت، صنف ِگم گشتہ‘‘ میں ایسی عورتوں کے بارے میں یوں رقم طراز ہے: ’’ حقوقِ نسواں کی علمبردار عورتیں نسوانیت سے نجات حاصل کرنے کا بھرپور تہیہ کئے ہوئے تھیں ۔ ان کے خیال میں یہی نسوانیت ہی تھی جو ان کی سیاسی ، معاشی، سماجی اور جنسی محرومیوں کا بنیادی سبب تھی‘‘ وہ اس تحریک کی آئیڈیالوجی کے فروغ پانے کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے لکھتا ہے: "It was out of the disturbed libidinal organization of women that the ideology of feminism arose." ’’یہ عورتوں کے جنسی اختلال کی بنا پر تھاکہ تحریک ِنسواں کا نظریہ آگے بڑھا‘‘ وہ مزید لکھتا ہے: ’’عورتوں کے دائرہ کار میں اصلاح کے پس پشت اصل بات یہ تھی کہ یہ عورتیں لا شعوری طور پر اپنی جنسی زندگی کے دائرے میں تبدیلی چاہتی تھیں ۔ یہ وہ عورتیں تھیں جو لاشعوری طور پر اپنے مغلوب یا تباہ ہونے کے خدشات کا شکار تھیں ، انہوں نے اس مسئلے کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ٹھان لی‘‘ انیسویں صدی میں تحریک ِنسواں کو قابل ذکر پذیرائی ۱۸۴۸ء میں ملی جب نیویارک کے نزدیک سینکافال کے مقام پر باغیانہ مزاج رکھنے والی عورتوں نے پہلا حقوقِ نسواں کنونشن منعقد کیا۔ شرکا نے عورتوں کی ’غلامی‘ کی خوب دہائی دی اور مردوں کوبرملا بے نقط سنائیں ۔ خاندانی نظام کی تباہی اور شادی کی ضرورت کا خاتمہ، تحریک ِنسواں کے بنیادی اَہداف میں شامل رہا ہے۔ میری وولسٹن کرافٹ سے لے کر آج تک اس تحریک کی علمبردار تمام عورتوں نے خاندان کو اپنی جارحانہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ چونکہ خاندان بطور ادارے کے مرد وزن کے آزادانہ اختلاط اور جنسی بے راہ روی کے راستے
Flag Counter