Maktaba Wahhabi

60 - 64
میں ایک اہم رکاوٹ ہے، اسی لئے خاندانی ادارے کو اس تحریک کے علمبردار راستے کا پتھر سمجھتے ہیں ۔ درج ذیل سطور میں پیش کردہ تحریک ِنسواں کی پرجوش مبلغات کے خیالات ملاحظہ فرمائیے: ۱۔ میری وولسٹن کرافٹ کے بعد جس خاتون نے شادی کے ادارے پر بھرپور حملہ کیا وہ جارج سینڈ (۱۸۷۶ء ۔۱۸۰۴ء) تھیں ۔ یہ خاتون انتہائی درجہ میں اعصابی اختلاج کی شکار تھی۔ ان کی زندگی کا سٹائل مردوں سے مشابہت رکھتا تھا۔ شادی کے ادارہ کے متعلق ان کا ارشاد ہے: ’’میرے اس یقین میں کبھی کمی نہیں آئے گی کہ شادی کا ادارہ سب سے زیادہ قابل نفرت ادارہ ہے ، مجھے ذرّہ برابر شک نہیں ہے کہ جب نوعِ انسانی عقل کی طرف سفر کرے گی تو شادی کا سلسلہ ختم ہوجائے گا‘‘ ۲۔ انیسویں صدی کے وسط میں مسز ایبی۔ ایچ پرائس کا اس تحریک کے حوالے سے خاصا چرچا رہا۔ یہی وہ موصوفہ تھیں جو ۱۸۴۸ء کے عورتوں کے کنونشن کی روحِ رواں تھیں ۔ انہوں نے مذکورہ کنونشن میں مطالبہ کیا کہ عورتوں کو ملازمتیں دی جائیں تاکہ وہ شادی کے جھنجھٹ اور معاشی انحصار سے اپنے آپ کو آزاد کرسکیں ۔ ۳۔ ۱۸۹۳ء میں الیزا برٹ گیمبل نے ’’عورت کاارتقاء‘‘ کے عنوان سے کتاب تحریر کی۔ موصوفہ نے اپنی تحقیق کا نچوڑ یوں بیان کیا کہ ’’شادی نے عورت کو جنسی غلام بنا دیا ہے‘‘ ۴۔ جان اسٹورٹ مل نے ’’عورتوں کی محکومیت‘‘ کے نام سے معرکۃ الآرا کتاب لکھی۔ وہ حقوقِ نسواں کا جذباتی پرچارک تھا۔ اس کا یہ قول زبان زد عام رہا: ’’شادی واحد غلامی کی صورت ہے جو اب تک ہمارے قانون کے تحت جائز ہے، نکاح کا بندھن قانو نی رنڈی بازی کے مترادف ہے‘‘ ۵۔ چارلٹ میگمن کا قول ہے: ’’عورت اور مرد کے درمیان شادی کے بغیر جنسی تعلقات کو ہم بدکرداری نہیں سمجھتے‘‘ ۶۔ ڈبلیو آئی جارج نے ۱۹۱۳ء میں ایک مضمون میں اعلان کیا: ’’تحریک ِنسواں کا اصل مقصد شادی کو ختم کرنا اور آزاد جنسی تعلقات کا قیام ہے‘‘ ۷۔ ’’میں غیر شادی شدہ اکیلی عورت کو قابل عزت سمجھتی ہوں ۔میری یہ پیشین گوئی ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب شادی کے بغیر زندگی گزارنے والی اکیلی عورت شادی شدہ خواتین سے زیادہ قابل عزت سمجھی جائے گی‘‘ (مسز سلیسا برلے) تحریک نسواں کی فکری دیگ کے یہ تو محض چند چاول ہیں ، مگر ان سے یہ نتیجہ اَخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ تحریک بنیادی طور پر جنسی آوارگی اور شادی کے نتیجے میں وجود میں آنیوالے خاندانی نظام کی تباہی پر مبنی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں امریکہ اور یورپ میں رونما ہونے والے ’جنسی اِنقلاب‘ نے تحریک نسواں کے لئے آتش گیر مادے کا کام کیا۔ ۱۹۶۳ء میں جب بے ٹی فرائیدن کی کتاب ’نسوانی راز‘(Feminine Mystique) سامنے آئی تو اس سے تحریک ِنسواں کا مزاج ہیجان خیز بغاوت کی صورت اختیار کرگیا۔ اس دور کو ’’جدید عورت ازم‘‘ یا تحریک ِنسواں کا دوسرا دور کہا جاتا ہے۔ اس دورمیں تمام اَخلاقی قدروں اور شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اس تحریک سے وابستہ خواتین مصنّفین نے ہر موضوع پر بے حد بے باکانہ قلم درازی کی۔ ہر وہ بات جسے
Flag Counter