Maktaba Wahhabi

61 - 64
عورت کی زبان یا قلم سے نکلنا نسوانی حیا کے تقاضوں کے منافی سمجھا جاتا تھا، اب انہوں نے روشن خیالی کے احساسِ تفاخر سے مملو ہو کر تحریر کی۔جنس سے وابستہ شاید ہی کوئی رکیک خیال ہو جو ان کی شوخی ٔتحریر کی زد میں آنے سے بچ گیا ہو۔ اس دور کی چند نامور انقلابی خواتین میں کیٹ ملٹ (Kate Millat)، جرمین کریر (Germain Creer) ،این کا ڈٹ (Ann Koedit) ہیں ۔ ان کی بعض کتابوں کے بے حد واہیات نام ہیں مثلاً جرمین کریر کی کتاب کا نام ’نسوانی ہیجڑے‘ (Female Eunuch) ہے۔ یورپ میں یوں تو ہر دور میں ہم جنس پرست (Lesbian) عورتوں نے تحریک ِنسواں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ لیکن ۱۹۷۰ء کے لگ بھگ یہ عورتیں عملاً اس تحریک کے ہراول دستے پر قابض ہوگئیں ۔ تحریک ِنسواں کی قیادت پر قابض ہونے کے بعد انہوں نے نئے نعرے تشکیل دیئے مثلاً " Feminism is the theory, … Lesbianism is the practice" "Lesbian Feminism by Molly Mcgray" (p.179( ترجمہ:’’تحریک ِنسواں ایک نظریہ ہے اور ہم جنس پرستی اس کی عملی صورت ہے‘‘ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مغرب میں عورتوں میں ہم جنس پرستی کا رواج دراصل مردوں سے نفرت کا اظہار اور ان کے مزعومہ تاریخی ظلم و ستم کے خلاف شدید ردّعمل ہے۔ ان عورتوں کے خیال میں مردوں کی رفیقہ ٔ حیات بننا ان کی جنسی غلامی کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ تحریک ِآزادی ٔ نسواں میں شامل عورتوں کا ایک گروہ "Radical Feminists" کہلاتا ہے۔ یہ گروہِ نسواں مردوں کی تحقیر اپنا ایمان سمجھتا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں انہی عورتوں نے ایسا لٹریچر پیدا کیا ہے جس میں اعلان کیا کہ اکیسویں صدی میں عورتوں کو مردوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ عورتیں افزائش نسل کیلئے حیوانات کی طرح مصنوعی تخم کاری"Artificial Insemination" کی تبلیغ کرتی ہیں ۔ عورتوں کو مردوں کی غلامی سے نجات دلانے کے تصور سے برپا کی جانے والی نام نہاد تحریک آزادی ٔ نسواں ہر اعتبار سے ’’آوارگی ٔ نسواں ‘‘ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ یہ سازش بربادی ٔ نسواں ہے۔ اس تحریک نے مغرب کو کیا دیا ہے؟ وہاں کا خاندانی نظام تباہی کے آخری کنارے پر ہے۔ یورپی معاشرہ جنسی ہوسناکی کی مکروہ تجربہ گاہ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ نسوانی آبرو، شرم و حیا اپنا مفہوم کھو چکے ہیں ۔ نکاح کے بغیر مردوزَن کے تعلق کو عیب نہیں سمجھا جاتا۔ حرامی بچوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ تقریبا ً ۸۰ فیصد شادیاں دو سال کے اندر اندر ہی طلاق پر منتج ہوجاتی ہیں ۔ عورتوں اور مردوں میں نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بے نکاحی مائیں ویلفیئر کے ٹکڑوں پر پلنے پر مجبور ہیں ، کیونکہ مرد حرامی بچوں کی پرورش میں شرکت کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ مغرب کی عورت جس نے ’’گھر کی ملکہ‘‘ کے عہدے کو حقیر جانا اور خاندان میں مرد کی سربراہی کو قبول نہیں کیا، آج دفتروں میں مرد کی سیکرٹری کا ذلت آمیز فریضہ انجام دینے میں محض اس لئے عیب نہیں سمجھتی کہ وہاں سے تنخواہ کی صورت میں چند ٹکے ہاتھ لگ جاتے ہیں ۔ خاندانی ماحول میں پیار و محبت، انس و مودّت اور ایثار و قربانی کے جذبات سے ایک ذہنی سکون اور نفسیاتی تسکین ملتی تھی۔ خاندانی اَقدار کے زوال کی وجہ سے معاشرہ مادّہ پرستی اور خود غرضانہ انفرادیت پسندی کی زد میں ہے۔ اس سے یورپی سماج کا اجتماعی ڈھانچہ انتشار کا شکار ہوگیا ہے۔
Flag Counter