اسلام عورت اور مرد کو مساوی قرار دینے کے باوجود ان کی صنفی و فطری صلاحیتوں کے لحاظ سے ان کا الگ الگ دائرہ کار تجویز کرتا ہے۔ اسلام مرد وزن کی مساوات کو بلاشبہ تسلیم کرتا ہے لیکن وہ مساوات اس مساوات سے یکسر مختلف ہے جس کی پرجوش تشہیر آج کے مغرب کا ’روشن خیال ‘ مفکر یا تحریک ِنازن کے علمبردار کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں تحریک ِنسواں کی علمبردار این ۔جی۔ اوز پاکستانی خواتین کے حقیقی مسائل کی نشاندہی کی بجائے مغرب کی تحریک ِآوارگی ٔ نسواں کی بھونڈی نقالی او ران کے نظریات کی لغو جگالی میں مصروف ہیں ۔ کوئی معقول پاکستانی ا س بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا کہ"Marital Rape" (زوجہ سے زنا بالجبر) بھی پاکستانی خواتین کا کوئی مسئلہ ہے مگر ہماری این ۔جی ۔اوز کی بیگمات اس موضو ع پر متعدد سیمینار منعقد کرا کے عورتوں کے خلاف اس مزعومہ ’ظلم‘ کے خاتمہ کا بارہا مطالبہ کرچکی ہیں ۔ اگست ۱۹۹۷ء میں خواتین حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس ’جرم‘ کے مرتکب شوہروں کے لئے عمر قید کی سزا تجویز فرمائی۔ یادش بخیر اس کمیشن میں عاصمہ جہانگیر، شیلا ضیاء اور دیگر عورتوں کے حقوق کی علمبردار بیگمات شامل تھیں ۔ ابھی حال ہی میں مغرب زدہ بیگمات نے خاتونِ خانہ کی محنت کے معاوضہ کو ان کے ’نسوانی حق‘ کے طور پر ذرائع ابلاغ میں خاص تشہیر دی ہے۔ ان ’روشن خیال‘ بیگمات نے یہ سوچنے کی زحمت کم ہی گوارا کی ہے کہ وہ ایک ’’گھر کی ملکہ‘‘ کو ایک گھریلو خادمہ کے حقیر مقام تک لانے کی بات کر رہی ہیں ۔ گذشتہ چند برسوں سے حقوقِ نسواں کی علمبردار پاکستانی این۔جی ۔اوز گھر سے فرار ہونے والی لڑکیوں کے عشق بازانہ نکاح کے ’حق‘ کا خوب پرچار کر رہی ہیں ۔صائمہ ارشد کیس نے تو مغرب زدہ بیگمات اور اسلام پسندوں کے درمیان ایک باقاعدہ ’قانونی جنگ‘ کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اس فیصلے کے ہمارے خاندانی نظام پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اس کا اعتراف جسٹس خلیل رمدے صاحب بھی کرچکے ہیں ۔ ۱۹۹۹ء کے دوران عالمی سطح پر ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کے خلاف تحریک چلائی گئی۔ غیرت کے نام پر قتل کا لائسنس اسلام بھی نہیں دیتا، مگر جس طرح این۔ جی۔ اوز نے اس کے خلاف جارحانہ پراپیگنڈہ کیا ،اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان کا اصل مقصود پاکستانی معاشرے سے غیرت کا جنازہ نکالنا ہے نہ کہ غیرت کے قتل کے خلاف احتجاج کرنا۔ انسانی حقوق کے علمبردار کسی بھی جرم کے لئے ’موت کی سزا‘ کی تو مخالفت کرتے ہیں مگر غیرت کے قتل کے مجرم کے لئے پاکستانی مغرب زدہ بیگمات نے عبرتناک سزائے موت کا تواتر سے مطالبہ کیا۔ پاکستان میں خواتین حقوق کی علمبردار اسمبلیوں اور ملازمتوں میں خواتین کی نصف نمائندگی کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں ۔ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستانی معاشرہ تو ایک طرف یورپی معاشرہ اپنی روشن خیالی کے باوجود اس تناسب کو ابھی تک حاصل نہیں کرسکا۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے یہاں مرد و زن کے حقوق کا تعین اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا جانا چاہئے۔ اسلام نے مرد و زن کے حقوق و فرائض کے بارے میں بے حد متوازن نظام عطا کیا ہے، مغرب کے سیکولر، لادین، مذہب بیزار، فحش انگیز، غیر متوازن اور ہیجان انگیز نظام کا اتباع بحیثیت قوم ہماری تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ مغرب جن خاندانی اقدار کی بحالی کی ضرورت محسوس کر رہا ہے، ہم ان اَقدار کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں ۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ ٔ فکریہ ہے! ٭٭ محدث کے زرِسالانہ کی تجدید کیلئے جن حضرات کو یاددہانی خطو ط ارسال کئے گئے ہیں وہ جلد اپنا زرِ تعاون بھیج دیں ۔ اسی طرح محدث کی رکنیت میں دلچسپی رکھنے والے حضرات جلدی کریں کیونکہ عنقریب محدث کا زرِسالانہ ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے کردیا جائیگا۔ |