تو بہرحال ہمیں بھی مرنا ہے ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾ بلکہ ہر بشر کی بستر مرگ پر موت بھی تو بہرحال اس سے زیادہ تکلیف دہ ہی ہو گی کیونکہ سب سے کم تکلیف والی موت انسان کے لئے میدانِ جنگ میں شہادت ہی کی موت ہے جب وہ اپنی عزیز جان کو اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش کر دیتا ہے۔ (5) چند اعتراضات اور ان کے جوابات سوال: قصاب بھائیوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ جی، اس طرح جانور جلدی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس سے تو جانور کو زیادہ رحمدلانہ طریقے سے ذبح کرنے کا تاثر ملتا ہے – ان کی بات میں بڑا وزن معلوم ہوتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں ہم عید قربان کے موقع پر اپنے جانور ذبح نہ کرنے دیں؟ جواب: اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنی مخلوق سے رحم کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ وہ تو سگی ماں سے بھی زیادہ رحیم ہے۔ شروع میں بیان کردہ حدیث کے مطابق وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ ’’چھری کو اچھی طرح تیز کرو اور ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ‘‘ کے مطابق اصل رحم تو یہ ہے کہ جانور کو چابک دستی کے ساتھ، آناً فاناً، اچانک جرأت مندی کی کاٹ کے ساتھ (with a Single Bold Incision) ذبح کیا جائے۔ رہی بات ان کی منطق کی تو وہ محض لاعلمی میں یا عادتاً ایسا کرتے ہیں۔ اس کی ساری خرابیاں ہسٹامین کے حوالے سے پہلے واضح کی جا چکی ہیں۔ نیز یہ کہ بدن میں رکا ہوا یہ خون بھی گوشت کے بھاؤ بک جائے اور عید الاضحیٰ کے موقع پر کم وقت میں زیادہ جانور ’ذبح‘ کر کے زیادہ ’اچھی‘ دیہاڑی بنانے کا معاملہ بھی ہوتا ہے۔ قصاب حضرات (اور گجر بھائی) ہمارے معاشرے کی بڑی اہم برادری ہیں، ذبح کے بعد کھال اتارنے اور گوشت بنانے میں ان کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جبکہ ہمارا دین ہم سے جانور کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ قربانی کے جانور کو خود ذبح کرنا ہی ہمارا اہم دینی فریضہ ہے۔ قرآن کریم کی سب سے چھوڑی سورت میں سب سے کم الفاظ ہونے کے باوجود اس میں بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ﴿وَانْحَرْ﴾ (قربانی کرو) موجود ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعمیل میں 62 سال کی کبرسنی میں بھی 63 اونٹ خود اپنے دست مبارک سے ذبح کیے، بقایا 37 کے نحر کے لیے حضرت علی کو حکم دیا۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کتنا بڑا اسلامی فریضہ ہے۔ 10 ذی الحجہ کو اللہ کے راستے میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ کسی اور کام کا اتنا ثواب نہیں ہے۔ بڑے بڑے دین دار لوگ اسے خالصتاً دنیا دارانہ، بے رحمانہ کام سمجھتے ہوئے یا عید کے کپڑوں کی شان و شوکت خراب ہونے کے اندیشے سے ذبح کرنے سے اجتناب کرتے رہنے کا نتیجہ ہے کہ اب یہ کام دینی ہدایات سے واقف اہل علم کی بجائے اَن پڑھ لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ راقم کا اپنا چشم دید واقعہ ہے کہ لاہور کے مضافاتی ایک سلفی مدرسے کے زیر انتظام قصاب حضرات کافی انتظار کے بعد دوپہر کے بعد آئے، ان کے انچارج صاحب ایک بنیان پہنے جس پر کارٹون سے بنے تھے، گلے میں لاکٹ لٹکائے، فلمی ہیرو کی شکل بنائے |