جدہ کے نام انگریزی میں ایک خط لکھ کر اس تکلیف دہ صورت حال کو شرعی اور طبی بنیادوں پر واضح کر کے یہ تحریر ان کے مقامی دفتر میں وصولی کرائی جس کا جواب بھی انہوں نے جلد ہی شکریہ ادا کرتے ہوئے بھیجا۔ جس میں بیان کیا کہ ’’اس سلسلے میں آپ کی مشاہداتی رپورٹ ڈاکٹروں تک پہنچا دی جائے گی اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس معاملے میں اس کے مطابق خیال رکھیں گے‘‘۔ باوجود اس بات کے کہ وزارتِ حج، وزارتِ انصاف اور افتاء و دعوۃ کے علماء پر مشتمل کمیٹی اور ان کے ساتھ سعودی عرب کی جامعات میں شریعت کے کم و بیش سو (100) طلباء یہاں کے تین ذبیحہ خانوں میں ذبح کے عمل کی نگرانی کرنے اور اس سلسلے میں شریعت کے تمام اصول و قوانین پر عملدرآمد کی یقین دہانی مؤثر بنانے کے لئے پہلے ہی سے تعینات ہیں، اس بارے میں مطلوبہ اہتمام نہیں کیا جاتا۔ راقم الحروف اس امر پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ انہوں نے میری سفارشات کو نہ صرف سنجیدگی سے لیا بلکہ اس کے مطابق آئندہ توجہ کرنے کی یقین دہانی بھی اپنے باضابطہ خط میں کرائی جس کی اصل راقم کے پاس محفوظ ہے۔ اس امر کے نظرانداز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کو ذبح کرنے میں دو مختلف میدانوں کا معاملہ درپیش ہے۔ جب تک کوئی شخص شریعت کا ماہر اور خوفِ الٰہی رکھنے کے ساتھ ہونے کے ساتھ ساتھ طب اور طبِ حیوانی کا ماہر نہ ہو، اسے یہ سمجھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے کہ قصابوں کے کون کون سے داؤ پیچ ہیں۔ کس عمل میں وہ کس حد تک حق بجانب ہیں یا صرف پیشہ ورانہ مہارت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے کس کس لاشعوری عمل سے طبی و شرعی لحاظ سے قربانی کے جانور پر کیا کیا آفات بیت جاتی ہیں۔ اسی طرح قصاب حضرات اور ان کے نگران وٹرنری ڈاکٹروں کو بھی جب تک اللہ کا خوف نہ ہو گا، وہ یہ بات علماءِ شریعت سے آخر کیوں پوچھیں گے کہ اس اس عمل سے قربانی کا عمل شرعاً غلط تو نہیں ہو جاتا؟ (4) ذبح کے اسلامی طریقے کی اصل روح (i) ذبح کرنے والے کو بوقت ذبح دراصل اس جذبہ قربانی کو یاد کرنا چاہیے جو قربانی کے سارے فلسفہ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دینے کا جذبہ ہی اس کی اصل روح ہے۔ جس کے بغیر قربانی ایک کار عبث ہے۔ اسی طرح جانور کو ذبح کرتے وقت اپنی موت کو بھی یاد کرنا چاہیے نیز یہ کہ یہ جانور بھی جاندار ہونے کے لحاظ سے بالکل ہماری طرح ہیں، اور تکلیف محسوس کرتے ہیں ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم﴾ ’’اور زمین میں کوئی چوپایہ نہیں اور کوئی پرندہ اپنے پروں سے نہیں اڑتا مگر یہ تمہارے جیسے ہی مخلوق (امتیں) ہیں‘‘ (سورۃ الانعام: 38) یہ تو اللہ کی بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور انہیں ہمارے قبضہ و کنڑول میں دے دیا ہے کہ انہیں اپنی خوراک بنا سکیں اور ہم انہیں اپنی خوراک بناتے بھی ہیں۔ ایک دن |