یہ رحمدلانہ، آسان ترین اور بہترین طریقہ موت ہے جو شرعی ذبیحہ والے جانور کو اسلام کی طرف سے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اسوہ حسنہ کے مطابق تجویز ہوا ہے۔ اسی طریقہ میں موت کی تکلیف بھی سب سے کم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ تقریباً تقریباً اسی کیفیت کی موت (شہادت) سے سرفراز شہید اللہ کی طرف سے بار بار ’’کچھ مانگو‘‘ کی پیشکش/حکم پر یہ جواب دیتا ہے کہ ’’مجھے دوبارہ شہادت کی موت عطا فرما‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’واللہ! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں شہید ہوں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الایمان) (ii) خون -- مادّی (طبی) و شرعی حقائق (الف) مینڈھے، بھیڑ میں کل خون اس کے زندہ وزن کا تقریباً بارہواں حصہ (%8.01) ہوتا ہے اور بیل میں اوسطاً تیرھواں حصہ (%7.71) ہوتا ہے۔ (Black Veterinary Dictionary P. 93) مثلاً اگر کسی مینڈھے، بھیڑ کا زندہ وزن 60 کلو ہے تو اس کے اندر تقریباً 5 کلو خون ہو گا اور 325 کلو وزنی گائے میں 25 کلو تک خون ہو گا، وعلیٰ ہذا القیاس – انسانی معدہ خون ہضم نہیں کر سکتا کیونکہ انسانی معدہ میں خون کی لحمیات (ہیموگلوبن وغیرہ) کو ہضم کرنے والے خامرے (Enzymes) نہیں پائے جاتے بلکہ خون پینے کی کوشش پر قولنج تک ہو سکتا ہے۔ (ب) خون جراثیم کی بڑھوتری کا بہترین ذریعہ (Growth & Culture Medium) ہے۔ لیبارٹریوں میں جب کسی مریض کی پیپ ٹسٹ کرتے ہیں تو اسے خون سے تیار کردہ ایک مرکب میں ڈال دیتے ہیں۔ پیپ کے جراثیم ایک ہی دن میں کروڑوں کی تعداد میں بڑھ جاتے ہیں۔ جب ان کی تعداد بہت ہی زیادہ ہو جاتی ہے تو ان کی نہ صرف شناخت آسان ہو جاتی ہے بلکہ ان پر مختلف دوائیاں (Antibiotic) ڈال کر دیکھا بھی جا سکتا ہے کہ وہ کس دوائی سے مرتے ہیں۔ اس طرح بیماری کے باعث کے پتہ لگنے کے ساتھ ساتھ (بلکہ اس سے پہلے ہی) علاج بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں پتے کی بات یہ ہے کہ جراثیم خون پر ہی پھلتے پھولتے ہیں۔ اس لئے خون کا استعمال متعدد خطرات کا باعث ہو سکتا ہے۔ (طبِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنس از ڈاکٹر خالد غزنوی، جلد 2، صفحہ 479) اسی لئے انسان کے لئے خون حرام ہے۔ قرآن کریم میں اس کی حرمت کے بارے میں کم از کم چار دفعہ ذکر ہوا ہے۔ ہر جگہ پہلے مردار بعد میں خون۔ مردار بھی اسی لئے حرام ٹھہرایا گیا ہے کہ اس کے اندر عموماً سارا خون رہ جاتا ہے۔ صاحب تیسیر القرآن مولانا عبدالرحمٰن کیلانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’خون چونکہ حرام ہے، اس لئے موت کی ہر وہ صورت جس میں خون جسم سے نکل نہ سکے، وہ بدرجہ اولیٰ حرام ہوئی‘‘ (سورۃ المائدہ: 3، حاشیہ 13) اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مردار اور جھٹکا اگر مکمل حرام ہے تو آدھا یا کم و بیش خون نکلنے دینا اور باقی اندر رہنے دینا نیم حرام ہونے کے زمرے میں آتا ہے۔ قرآنی لفظ ﴿ ذَكَّيْتُمْ۔۔﴾ ’’جسے تم مرنے سے پہلے ذبح کر لو‘‘ میں ایک دلچسپ لغوی نکتہ ہے کہ |