’’تم پر مردار، خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا گیا اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن تم اسے ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو، یہ سب بدترین گناہ ہیں‘‘ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ﴿ ذَكَّيْتُمْ۔۔﴾ ارشاد فرما کر اسے شرعی ذبح اور کھانے کے لئے حلال قرار دیا جبکہ آگے ﴿ ذُبِحَ﴾ کا لفظ ارشاد فرما کر آگے مذکور شرکیہ عمل کی نجاست کی وجہ سے جانور ہی کو حرام قرار دے دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ محض ذبح کر دینا حتیٰ کہ تکبیر بھی پڑھ دینا، اسے شرعی معنوں میں حلال نہیں کر دیتا جب تک کہ اس کا مقصود تقرب الی اللہ اور رضوان من اللہ حاصل کرنا نہ ہو۔ (2) جدید طبی تحقیقات / شرعی بصائر (i) شرعی ذبح کا سائنسی جائزہ...اچانک زخم: جب بھی کسی بھرپور جوانی والے جانور یا انسان کو اس کیفیت کے ساتھ اچانک زخمی کیا جاتا ہے کہ اسے زخمی کرنے سے پہلے، دوران یا بعد میں خوفزدہ نہ کیا گیا ہو، خصوصاً حرام مغز کی بتی نہ کٹی ہو۔ مثلاً حلال جانور کا ذبیحہ یا میدانِ جنت میں غازی جو موت کے کسی قسم کے خوف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شہادت کی بہترین موت کا متلاشی ہوتا ہے حتیٰ کہ اُڑتا ہوا پرندہ جسے کسی تیز دھار آلہ کی بجائے تکبیر پڑھ کر چاہے گولی سے خون نکال کر شکار کیا جائے تو: (الف) اس کا خوب زیادہ آسانی اور تیزی سے بکثرت نکلتا ہے اور اکثر سارا نکل آتا ہے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ (ب) زخم لگتے ہی، خصوصاً خون کی مقدار جسم میں کم ہوتے ہی دل و دماغ کے باہمی ہنگامی رابطے ہوتے ہیں، دل دماغ کو حکم دیتا ہے کہ (حکماء کی زبان میں) ’’اب ’قوتِ مدبرہ‘ کو جاؤ، تمام اعصاب کو ہنگامی حالات کی خبر دے کر جان بچانے کے لئے جو ہو سکتا ہے کرو‘‘۔ دماغ جواباً ایک طرف دل کے لئے تیز تیز دھڑکنا تجویز کرتا ہے تاکہ خون کو کم مقدار کے باوجود اسے جلدی جلدی پمپ کر کے جسم کے تمام حصوں تک پہنچا کر اس کے ذریعے آکسیجن، غازہ حیات (Life Gas) دل و دماغ کو پہنچائی جا سکے۔ دوسری طرف خود کار اَعصابی نظام (Autonomous Nervous System) کو حکم ملتا ہے کہ وہ یہ خون جسم کے ہر ہر حصے تک جلدی جلدی پہنچانے اور گندا خون واپس لانے کے لئے متحرک و مستعد ہو جائے۔ اس سے خون کی مقدار کم ہو جانے کے باوجود دھڑکن، نبض چلتی رہتی ہے، دورانِ خون تیز ہو جانے کی وجہ سے بلڈ پریشر کافی حد تک قائم رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام خون بدن کے کونے کونے سے نکل جانے تک دماغ کام کرتا رہتا ہے۔ |