جینا، مرنا سب اللہ رب العٰلمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، میں اسی کا حکم دیا گیا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں، اللہ تعالیٰ تیرے نام سے، تیرے لئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور ان کی امت کی طرف سے – اللہ کے مبارک نام کے ساتھ اور اللہ بہت بڑا ہے۔ پھر آپ نے ذبح کیا‘‘ (ii) (الف) احسان کے ساتھ راحت پہنچاتے ہوئے ذبح کرنا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى اللّٰه عليه و سلم قَالَ: "إنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ (مسلم، نسائي، احمد، ابن ماجه، عن ابي يعلي، شداد بن اوس) ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بےشک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کا رویہ اختیار کرنا فرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ جب تمہیں کسی کو (قصاص یا میدانِ جنگ وغیرہ میں بھی) قتل بھی کرنا ہو تو اسے بھی جلد از جلد انجام دو اور اگر ذبح کرنے لگو تو بھی چابکدستی سے کرو اور چھری کو اچھی طرح تیز کرو اور ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ‘‘ (ب) چھریوں کو جانوروں سے چھپاؤ عن عبد اللّٰه بن عمر قَالَ عمر قَالَ رسولَ اللّٰهِ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم: قَالَ أمر رسولَ اللّٰهِ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم بِحَدَّ الشِّفارَ وأن تُوارَى عن البهائمِ ؛ وقال : إذا ذبح أحدُكم فليجهِزْ (احمد، ابن ماجه، كتاب الذبائح، باب إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھریوں کو تیز کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ اسے جانوروں سے چھپایا جائے اور کہا کہ جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو (چھری پھیرنے میں) جلدی کرو‘‘ نبی اکرم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ بکری کے سامنے چھری تیز کر رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تو اسے جیتے جی ہی مار رہے ہو۔ (ج) جانور کو تمام خون نکلنے ﴿ ذَكَّيْتُمْ۔۔﴾ (المائدۃ) ’’خون بسہولت تمام نکال لیا ہو‘‘ ذبح ہو جانے اور طبعاً ٹھنڈا ہو کر بے حس و حرکت، ساکت ہو جانے تک اس کی کھال اُتارنے میں جلد بازی نہ کی جائے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں: لَا تَعجلوا الأنفس أن تزهق ’’جانور کی روح نکالنے میں جلدی نہ کرو حتیٰ کہ خود نکل جائے‘‘ (سنن دارقطنی و اِرواء الغلیل 2542) ان تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ جانور کو پہلے کھلا پلا کر، خوش کر کے، آرام و اطمینان سے اسے کسی بھی طرح سے دہشت زدہ، خوفزدہ کئے بغیر نرم زمین پر لٹایا جائے۔ چھری کو کسی اوٹ مثلاً دیوار یا کسی پردہ سے یک دم نکالا جائے اس سے پہلے ترجیحاً جانور کی آنکھوں پر کپڑا ڈال لیں۔ (iii) تقرب الی اللہ، کیونکہ اگر دونوں بڑے کام کر لئے جائیں لیکن اسے کسی آستانے پر ذبح کیا جائے اور نیت ذبح لغیر اللہ کی ہو تو صرف اسی وجہ سے وہ حرام ہو جائے گا۔ جیسے قرآن کریم میں ہے: ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ۔۔﴾ (سورۃ المائدۃ: 3) |