Maktaba Wahhabi

41 - 79
ربّ العزت نے ان کو لحن داودی سے نوازا تھا۔ قرآن کی تلاوت کرتے تو حد درجہ دل و دماغ میں رِقت و سرور پیدا ہوتا۔ متاثر ہونے کے علاوہ سننے والا داد دئے بغیررہ نہ سکتا۔ انہوں نے پاکستان کے متعدد اہم شہروں کے علاوہ کراچی کے کونہ کونہ میں توحید و سنت کی دعوت کو پہنچایا ۔مولانا غلام اللہ خاں مرحوم (راولپنڈی) فرمایا کرتے تھے کہ کراچی میں ہمارے لئے دعوتی میدان حافظ اسماعیل نے صاف کیا ورنہ ایسی مذہبی جھگڑوں والی جگہوں تک رسائی ہمارے لئے ممکن نہ تھی۔حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی مرحوم دعوتی پروگراموں کے سلسلہ میں کراچی میں ہر سال تقریباً چار ماہ گزارتے۔ انہی دنوں حیدر آباد، سندھ میں ہمیشہ سالانہ کانفرنس ہوتی۔ ایک دفعہ حافظ محمد اسماعیل ذبیح توحید کے موضوع پر تقریر کر رہے تھے کہ اہل بدعت نے ہنگامہ بپاکردیا۔ سٹیج پر خطیب ِملت بھی تشریف فرما تھے، انہوں نے مولانا اسمٰعیل ذبیح کو اشارہ کیا کہ بیٹھ جائیں اور تھوڑی دیر کے لئے کھڑے ہو کر اپنی خطابت کا ایسا جادو جگایا کہ مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ پھر فرمایا :ذبیح صاحب !اب کھڑے ہو کر موضوع مکمل کریں ۔ سرگودھا شہر کے بلاک ۱۹ کی جامع مسجد کے بانی مبانی حافظ محمد اسمٰعیل روپڑی مرحوم ہی تھے۔ گوجرانوالہ کی آبادی حاکم رائے میں انصاری برادران والی مسجد میں ایک عرصہ تک خطباتِ جمعہ میں اپنی سحر بیانی سے بیداری کی لہر پیدا کی۔ کسی وقت اگر خود وہاں نہ پہنچ سکتے تو پھر نیابت حافظ عبدالقادر کرتے۔ اگر یہ بھی نہ جاسکتے تو پھر محدث روپڑی تشریف لے جاتے۔ ایک دفعہ راستہ میں حافظ اسمٰعیل روپڑی کچھ لیٹ ہوگئے۔ مسجد میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کہ حافظ محمد محدث گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ منبر پر تشریف فرما ہیں ، جب ان کی نگاہ ان کی طرف پڑی تو احتراماً منبر سے اُتر کر نیچے بیٹھ گئے۔ کسی زمانہ میں فیصل آباد ، امین پور بازار والی مسجد میں بھی مسلسل خطبہ ٔجمعہ ارشاد فرماتے رہے۔ قصبہ مہمونوالی،ضلع شیخوپورہ کو تو اپنا دوسرا گھرسمجھتے تھے اور ان لوگوں کو بھی آپ سے بہت زیادہ پیار و محبت تھا جو آخری دموں تک قائم رہا۔ فیصل آباد کی آبادی گلبرگ، سی بلاک کی اہل حدیث مسجد میں اس کی تاسیس سے لے کر خطبہ جمعہ حافظ عبدالقادر ارشاد فرمایا کرتے تھے بلکہ بعض دفعہ رمضان میں قرآن بھی یہاں سناتے لیکن روزانہ لاہور آتے۔ بوقت ِتراویح نیو خان کی بس کے ذریعے پھر واپس چلے جاتے۔ ایک دفعہ کسی مجبوری کی بنا پر نہ جاسکے تو مجھے کہا :فیصل آباد میں تراویح پڑھا آؤ، اس زمانے میں فیصل آباد بس کا کرایہ سوا دو روپے ہوتا تھا، احتیاط کے طورپر میں پانچ روپے لے کر گیا ۔ اس مسجد میں ایک رمضان میں حافظ مقبول احمد مرحوم نے بھی تراویح پڑھائی تھی۔آج کل اس مسجد میں خطبہ جمعہ ہمارے دوست قاری محمد رمضان استاذ جامعہ سلفیہ ارشاد فرماتے ہیں ۔
Flag Counter