امام مہدی ہیں) فرقہ اثناء عشریہ کی شاخیں: پھر یہ فرقہ اثناء عشریہ کی بھی مختلف شاخیں ہیں۔ منجملہ ان کے ایک اخبار یہ ہے جو کہتے ہیں کہ امام کے ہر قول کو تسلیم کرنا واجب ہے۔ خواہ وہ اقوال متضاد ہوں۔ علامہ تقی کا کہنا ہے کہ شیخ کلینی، شیخ صدوق اور شیخ طوسی کا یہی مسلک ہے۔ دوسرا فرقہ ’’اصولی‘‘ ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ روایات کو قبول کرنے کے چند اصول ہیں۔ یہ اصول تقریباً دس ہیں جو اہل سنت کے نزدیک معتبر ہیں جن کو قواعد اصول کہا جاتا ہے۔ تیسرا فرقہ شیخی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہر عہد میں بارھویں امام کی طرف سے ایک سربراہ دینی متعین ہو جاتا ہے جو کچھ وہ کہے اس کے تسلیم کرنے میں چون و چرا کی گنجائش نہیں یہاں تک کہ اگر خلاف قرآن بھی کچھ کہے تو اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ مذہب شیعہ: عہد حاضر میں شیعہ اثنا عشریہ کے بیشتر علما بالخصوص ایران کے شیعہ خود کو اصولی کہتے ہیں۔ لیکن جناب تقی کے نزدیک کوئی شیعہ پورے طور پر اصول نہیں ہے بلکہ ایک حد تک یہ اخباری اور تصوف دونوں کا ملغوبہ ہے۔ چنانچہ اگر کسی مجلسِ وعظ میں مسلک اخباری یا صوفیانہ یا شیخی مسلک کے مطابق مبالغہ آمیز تقریر ہو رہی ہو تو ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ فرقہ مفوضہ: اس سلسلہ میں جناب تقی نے ایک اور فرقہ کا ذکر کیا ہے جسے مفوضۂ یا غلات کہتے ہیں جس کا ظہور شیخ صدوق کے زمانے (یعنی چوتھی صدی ہجری) میں ہوا۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا نے اماموں کے بعد امور خلائق کو انہیں تفویض کر دیا ہے۔ انہوں نے اذان اور اقامت اشھد ان محمد رسول اللّٰہ کے بعد اشھد ان علیاً ولی اللّٰہ یا اشھد ان علی امیر المومنین حقًا وغیرہ الفاظ کا اضافہ کر دیا ہے۔ جس کے باعث شیخ صدوق نے ان اشخاص کو لعنت کا مستحق قرار دیا ہے (جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا) اس تفصیل کے بعد ڈاکٹر صادق تقوی نے اس امر پر اظہار افسوس کیا ہے کہ اگرچہ اس وقت دنیائے شیعی میں فرقہ مفوضہ یا غلات کا وجود نہیں ہے لیکن اس وقت شیعوں کے تمام فرقے خواہ وہ اخباری ہوں یا اصولی۔ شیخی ہوں یا صوفی عقیدہ اور عمل میں کم و بیش سب کے سب مفوضہ ہیں اور مذہب جعفری یعنی اسلام سے کوسوں دور ہیں۔ اگر احیانًا علمائے شیعہ میں سے کوئی حق پسند ہو بھی تو اکثریت سے مرعوب ہو کر زبان کشائی کی جرأت نہیں کرتا اور تقیّہ سے کام لیتا ہے۔ البتہ گیارھویں صدی ہجری میں علامہ شیخ حُرعاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس |