Maktaba Wahhabi

39 - 46
سے کام لیا ہے اور اذان اور اقامت کے الفاظ میں ولایت و امامتِ علی رحمہ اللہ کی شہادت کا اضافہ کر دیا تھا۔ شیخ صدوق نے جنہوں نے کلینی سے اسلام اور قرآن کا علم حاصل کیا فرقہ مفوضہ کو ان کے اس عمل پر لعنت کا حق دار قرار دیا ہے۔ ان دو کتابوں کے علاوہ علامہ تقی نے شیخ طوسی المتوفی ۴۶۰؁ھ کی دو کتابوں ’’تہذیب‘‘ و ’’ابصار‘‘ کے باہمی اختلاف کا ذکر بھی کیا ہے اور بتایا ہے کہ علمائے شیعہ کہتے ہیں کہ آنکھ بند کر کے ان کتابوں کی پیروی نہ کرنی چاہئے بلکہ لازم ہے کہ ہر عہد کے زندہ مجتہد مثلاً شیخ طوسی و صدوق و کلینی ی پیروی کی جائے۔ جن کتابوں پر مذہب شیعہ کی بنیاد ہے جناب تقی نے ان کی اور ان کے مصنفین کے خیالات کی تضعیف کے بعد موجودہ دنیائے شیعہ میں مختلف مسالک شیعی کی کیفیت بھی بتائی ہے اور لکھا ہے کہ پیروان مسالک مختلفہ کو لازم تھا کہ کتاب و سنت کے معیار کے مطابق باہمی مشورہ سے اختلافات کو دور کرتے لیکن وہ اس بات پر تیار ہی نہیں ہیں کہ علی اور آل علی کی پیروی کریں جن کی جھوٹ موٹ کو وہ اپنا امام کہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ مذہب کے بہت سے فرقے نمودار ہو گئے۔ ان کی تفصیل یہ بتائی ہے کہ: مختلف مسالک شیعہ: موجودہ شیعی مذاہب میں سے پہلا مسلک زیدی ہے جو زید بن علی بن حسین کے نام سے منسوب اور مسلک اہل سنت سے قریب تر ہے۔ دوسرا مذہب اسماعیلی ہے جن کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادق کے بعد ان کا فرزند اسماعیل امام تھا (نہ کہ امام موسیٰ کاظم) تیسرا مسلک شیعہ ہشت امامی ہے جو امام ہشتم امام رضا تک کے ائمہ کو مانتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ امام موصوف کے بعد ان کے اقطاب، اصحابِ وحی ہیں اور اب شریعتِ پیغمبر کی پیروی لازمی نہیں ہے۔ چوتھا مسلک شیعہ یا زدہ امامی یا نصیریہ ہے اور امام حسن عسکری تک کے اماموں کو مانتے ہیں۔ ان کے مسلک کی بنیاد امام حسن عسکری کے وکیل ابن نصر کی رہنمائی پر ہے۔ پانچویں شیعہ اثنا عشری ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ ان کا آخری امام حسن عسکری کا فرزند ہے جن کی کوئی منکوحہ بیوی نہ تھی بلکہ ان کی کنیز ’’نرگس‘‘ یا ’’مریم‘‘ قیصر روم کی بیٹی تھی جس کے بطن سے بارھویں امام پیدا ہوئے اور اسی سال کے بعد غائب ہو گئے اور اخیر زمانہ میں پھر ظاہر ہوں گے۔ (ان سے مراد
Flag Counter