Maktaba Wahhabi

38 - 46
میں محدثین اہل سنت والجماعت؛ زہری، مالک بن انس، ابو حنیفہ، محمد بن ادریس شافعی، دارمی، ابو داؤد فارسی، احمد بن حنبل، مسلم نیشا پوری، بخاری، ابن ماجہ، قزوینی، ترمذی اور نسائی خراسانی کے مجموعۂ احادیث پر تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ ان میں ہزاروں احادیث قرآن کے خلاف[1] ہیں۔ لیکن ایسے امور کی نشاندہی نہیں فرمائی کہ سنیوں نے قرآن کے خلاف کس حدیث کو اپنے مسلک یا مذہب کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اس کے برخلاف علمائے شیعہ کے اِس طرزِ عمل پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے سنیوں کے مندرجہ بالا بارہ مجموعوں سے قرآن کے خلاف ناقابلِ یقین روایات کو اختیار کر کے ان کے راویوں کے نام بدل دیئے اور ایسے اشخاص کے نام شامل کر دیئے جن کا وجود ہی یا تو سرے سے معلوم نہیں ہے اور یا ان کی ثقاہت مجہول ہے تاکہ اگر کوئی سنی اس سے انکار کرے تو وہ کہہ سکیں کہ یہ روایت تمہاری کتابوں میں بھی ہے۔ شیعہ کتب روایات پر تنقید: ان کتابوں میں ایک مجموعہ اصول و فروع کافی ہے جو شیخ کلینی متوفی ۳۲۸ھ کی تالیف اور موجودہ مذہب کا سب سے پہلا مجموعۂ روایات حدیث ہے۔ اس کے باب میں علامہ تقی کی رائے یہ ہے کہ اس کتاب میں واضح طور پر قرآن کے خلاف اور صریحاً غلط مسائل درج ہیں اور دونوں کتابیں (اصول و فروع) حضرت علی اور امام جعفر صادق کی رہنمائی سے متصادم اور اہل سنت کی کتب احادیث کی طرح مشکوک ہیں۔ اس کتاب کی بابت کہا جاتا ہے کہ اس کے مسائل امام جعفر صادق کے چار سو شاگردوں نے امام موصوف سے سن کر محفوظ کیے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مسائل چار سو ائمہ شیعہ کے ارشادات کا مجموعہ ہیں۔ علامہ تقی نے دونوں خیالات کی تردید کی ہے۔ دوسری کتاب میں من لا یحضرہ الفقیہ ہے جو شیخ صدوق ابو جعفر محمد المتوفی ۲۸۱؁ھ کی کتاب ہے۔ جناب تقی نے اس کتاب کو بھی فروع کافی کی طرح متناقض روایات کا مجموعہ قرار دیا ہے کہ ان جھوٹی روایتوں کو ائمہ شیعہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ اس عہد میں ایک نیا فرقہ جو فرقۂ مفوضہ کے نام سے معروف تھا جنہوں نے اصول کافی کی ایک روایت کی بنا پر ائمہ شیعہ کے بارے میں حد سے زیادہ مبالغہ
Flag Counter