Maktaba Wahhabi

37 - 46
ہیں۔ ایک ’’عرفی‘‘ کہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن عام طور پر لوگ اس پر عمل پیرا تھے۔ مثلاً وہ نجاستیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں ہے چنانچہ خون اور نشہ آور شراب کے سوا تمام نجاستیں عرفی ہیں۔ اس باب میں اہل اسلام کے درمیان بہت کم اختلاف ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو مسلمانوں کا عام دستور العمل تھا مثلاً نماز کی رکعتیں اور اس کا مفہوم۔ آغازِ اسلام سے یہ طریق اب تک مسلمانوں کا دستورِ عمل ہے۔ ان میں جو اختلافات بعد میں ہوئے ہیں ان کو تاریخ کی رُو سے تحقیق کر کے دور[1] کیا جا سکتا ہے۔ تیسری قسم میں ایسے مسائل ہیں جن کی ضرورت برسوں، مہینوں میں کبھی کبھی پڑتی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ اور خوں بہا کی مقدار میں تعین، ان امور میں جو اختلافات ہیں وہ بے حقیقت ہیں اور بآسانی دور کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ تحقیق و تثبیت سنت کے لئے ڈاکٹر صاحب نے عقل و فراست سے کام لینے کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ لیکن چونکہ ہر شخص اپنے آپ کو عقل مند تصور کرتا ہے اور دینی معاملات میں خود رائی سے خرابی پیدا ہوتی ہے اس لئے انہوں نے قرآنی ارشادات کے مطابق ارباب عقل و فہم کو باہمی مشورہ سے تصفیہ[2] معاملات کی تاکید کی ہے اور اس پر اظہارِ افسوس کیا ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے مختلف المسالک علماء نے اس طرف خاطر خواہ توجہ مبذول نہیں فرمائی۔ شیعی سنی روایات: اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ شیعی علماء کی توجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خطبہ ۲۰۱ (نہج البلاغۃ) کی طرف مبذول کرائی گئی ہے جس میں حضرت ممدوح نے غیر یقینی، محض خیال اور خود ساختہ (یا موضوع) روایات پر وثوق کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہی مضمون بعینہٖ اصول کافی میں امام جعفر صادق سے منقول ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر موصوف نے علماء شیعہ پر الزام لگایا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اتباع کا دعویٰ کرنے کے باوجود انہوں نے سنیوں کی طرح ظنی، غیر یقینی اور خود ساختہ روایات پر بھروسہ کیا جو صریحاً قرآن اور تصریحات ائمہ شیعہ کے خلاف ہے۔ انہوں نے تاریخی پس منظر
Flag Counter