کہا جائے تو ظاہر ہو گا کہ انہوں نے شیعہ علماء پر زیادہ الزام عائد کیا ہے اور باہمی اتحاد و اتفاق کے لئے جو تجاویز پیش فرمائی ہیں ان کا روئے سخن بیشتر علمائے شیعہ کی جانب سے ہے۔ مذہب جعفری: آغازِ کتاب میں انہوں نے اتباع کتاب و سنت کو مذہب اسلام کی اساس قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ مذہب جعفری مذہب حق ہے کیونکہ اس کی بنیاد بھی کتاب و سنت پر ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ: ’’لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم اسے اپنائے رہو گے گمراہ نہ ہو گے۔ ایک چیز کتاب اللہ اور دوسری سنت رسول اللہ۔‘‘ (ترجمہ) اس کے بعد رسول اللہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: ’’میں دو بیش بہا جواہر تم میں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب اللہ اور دوسرا میری عترت۔‘‘ لیکن اس حدیث میں لفظ ’’عترت‘‘ کے جو معنی شیعہ اصحاب نے پیغمبر اسلام کے کنبہ اور ان کی نسل کے لئے کیے ہیں ڈاکٹر صاحب اس کو درست نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کے خیال میں یہ حدیث یا تو موضوع ہے اور یا پھر ’’عترت‘ کا مفہوم حضور کی سنت یا حقیقی معنوں میں قرآن کی تبلیغ کرنے والے ہیں۔ جس میں حضرت علی رحمہ اللہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد، ان کے اصحاب اور صالح اہل قبیلہ سب شامل ہیں۔ اس کی دلیل یہ دی ہے کہ پیغمبر اسلام کی اولاد نرینہ نہ تھی اور ان کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رحمہ اللہ کی اور حضرت علی رحمہ اللہ کی اولاد پر منحصر نہیں ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ کتاب و سنت کے دو معیاروں کو اسلام کے جملہ مسلکوں نے تسلیم کیا ہے۔ لہٰذا یہی باہمی اتحاد کا وسیلۂ اولین ہے۔ کتاب و سنت کے مطالب: مطالبِ کتاب و سنت کی تعیین و تحقیق کے بارے میں ان کی رائے مختصراً یہ ہے کہ قرآن حکیم میں کچھ مطالب مفصل ہیں اور کچھ مجمل ہیں۔ جو باتیں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں وہ اعتقادی مسائل ہیں۔ تمام مسلمانوں کو اس پر قائم رہنا چاہئے۔ اور جن مسائل میں فکر و نظر کی ضرورت ہے ایسے فکری مسائل کو احادیث صحیحہ کی روشنی میں متعین کرنا چاہئے۔ نیز ایسے عقائد جن کا ثبوت قرآن حکیم کی قطعی دلیلوں سے نہ ہو ان کو نظر انداز کر دینا چاہئے (اس سے شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کو ایسے مسائل سے تعرض نہ کرنا چاہئے) تاکہ مسلمانوں کا ذہنی بوجھ ہلکا ہو جائے۔ سنت کی تین قسمیں: تحقیق و تعیین سنت کے باب میں انہوں نے بتایا ہے کہ اس کی تین قسمیں |