Maktaba Wahhabi

27 - 46
من مصائد الشیطان ۔ص۵۱) ذکر سے مراد اصل میں ’’استخصار‘‘ ہے (مفردات)یعنی زندگی کے شب و روز میں خدا یاد رہے، بے خدا زندگی کے بجائے ’’باخدا‘‘ زندگی گزاری جائے۔ اور جن روایات میں ’’حلقِ الذکر‘‘ کا ذکر آتا ہے ان سے مراد بھی یہ مصنوعی مجلسیں نہیں ہیں بلکہ وہ اجتماع ہیں جو محض احقاقِ حق امتثالِ حق اور غلبۂ حق کے لئے وقتاً فوقتاً اور حسبِ ضرورت منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ مصنوعی مجالسِ ذکر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام اجتماعی جدوجہد سے محروم رہتے ہیں اور احقاقِ حق کے لئے میدانِ کار زار جو گرم ہوتے ہیں ان سے عموماً الگ تھلگ رہتے ہیں کیونکہ صرف ان ’لسانی اذکار‘ سے وہ مطلوب انقلاب برپا نہیں ہوتا جس کو برپا کرنا ان کے ایمانی فرائض میں ہوتا ہے۔ پوری زندگی با خدا گزارنا اصلی ذکر اللہ ہے۔ مگر اب اسے محدود کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی کے باقی شئون، حالات اور مظاہر میں ’’یادِ خدا‘‘ کا الزام عموماً کم باقی رہ جاتا ہے، اس لئے ان اذکار کے بعد ان کی زندگی میں اُدْخُلُوْا فِی الْسِّلْمِ کَآفَّۃً کا رنگ بھی عموماً پھیکا رہتا ہے مگر انہیں اس کا احساس کم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان مجالسِ ذکر کو نہایت سختی سے دبا دیا تھا (دارمی)اور یہ وہ باتیں ہیں جو سید صاحب ہم سے بہتر جانتے ہیں ۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ’لسانی ذکر‘ کا وجود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ذکر فنی مجالشِ ذکر کا نام نہیں ہے۔ اور یقیناً نہیں ہے۔ شریعت نے عبادت کی جو اجتماعی صورتیں متعین کی ہیں وہ بھی حلق الذکر سے تعلق رکھتی ہیں اور دوسرے وہ دینی کام جو اجتماعی طور پر کرنا پڑتے ہیں وہ بھی حلق الذکر ہیں ۔ پروفیسر موصوف دوسرے انداز میں جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان کے رفع درجات اور مغفرت کے لئے کافی ہیں ، اگر وہ ان ’فنی ذکر‘ کی محفلیں منعقد کرنے کا اہتمام نہ بھی کریں تو بھی ان شاء اللہ ان سے باز پرس نہ ہو گی۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث ہو سکتی ہے لیکن فتوے جیسا مقام اس کا متحمل نہیں ہے۔ ۳۔ اقسامِ گناہ: قرآن حکیم نے گناہوں ، خطاؤں اور لغزشوں کے سلسلے میں مختلف اصطلاحات
Flag Counter