غزنوی خاندان علماء اور صلحاء کا مشہور خاندان ہے۔ مجھے صرف حضرت مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے صاحبزادے جناب پروفیسر ابو بکر غزنوی کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ مولانا داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ ان کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ سال گزرا ہے، ان کے علم کی گہرائی، وسعت، خشیتِ الٰہی اور ذکر مسنون کے جو مناظر راقم الحروف کے سامنے آئے ہیں وہ نہایت جاذب ہیں ۔ اگر کبھی وقت اور فرصت نے اجازت دی تو ان شاء اللہ اس سلسلے کی ان مبارک یاد داشتوں کو ضرور قلم بند کروں گا۔ بہرحال ‘اتباعِ سنت‘ میں ان کا مقام بہت اونچا تھا، ذکر و فکر ان کا خاص مشغلہ تھا، لیکن بایں ہمہ انہوں نے خصوصی ذکر کی یہ محفلیں منعقد نہیں فرمائی تھیں ۔ حالانکہ جو دواعی اور حالات اب ہیں اس وقت بھی وہی تھے۔ پروفیسر موصوف اہلِ علم ہیں ، بالخصوص جدید طبقہ کی اصلاحِ حال کے لئے انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں قابلِ قدر ہیں ۔ ان کی تقریر بڑی دلنشین، مؤثر، حکیمانہ اور عالمانہ ہوتی ہے اس اعتراف کے باوجود ان کے اِس ’’اسلوب ذکر‘‘ سے اتفاق کرنا ہمارے لئے بہت مشکل ہے۔ جن رہنماؤں نے یہ ’محفلیں ‘ ایجاد فرمائی ہیں ، ان کے مغالطے کی دو وجہیں ہیں ۔ حدیث میں ذکر اور حلقۂ ذکر کا جو ذکر آیا ہے ان کا مفہوم کیا ہے؟ ذکر کسے کہتے ہیں اور حلقہائے ذکر سے کیا مراد ہے؟ یہ غور طلب امور ہیں ۔ ذکر کا مفہوم ’زبانی ورد‘ سمجھ لیا گیا ہے اور ذکر کے حلقوں سے مراد بھی یہ مصنوعی محفلیں لے لی گئی ہیں ۔ حالانکہ یہ ان کا محدود تصوّر ہے۔ ذکر: خدایابی، خدا جوئی اور تعمیلِ احکامِ الٰہی کے جذبہ سےجو بھی کام کیا جائے، اسے ذِکر ہی کہتے ہیں گو اس کی زبان بھی نہ ہلے اور نہ چلے۔ حضرت امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ الدنیا ملعونۃ وملعون ما فیھا الا ذکر اللّٰه وما والاہ (ذکرِ الٰہی اور اس سے متعلقہ امور کے علاوہ ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہے)میں ذکر سے مراد تمام قسم کی طاعات ہیں ، سو جو بھی اس کی اطاعت میں ہوتا ہے وہ اس کا ذاکر ہے۔ خواہ اس کی زبان بھی نہ ہلے۔ الدنیا ملعونۃ وملعون ما فیھا الا ذکر اللّٰه وما والاہ فذکرہ جمیع انواع طاعتہ، فکل من کان فی طاعتہ فھو ذاکر لہ وان لم یتحرک لسانہ بالذکر (اغاثۃ اللہفان |