بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم مسلمان کی نامسلمانی مطلب کا دین۔۔۔۔ مطلب کا عمل بایں کجروی، خوش فہمی کا روگ الگ دینِ اسلام جزوقتی حاضری کا نام نہیں نہ نیم عملی لائحۂ عمل کا یہ کوئی چارٹر ہے بلکہ یہ ایک ہمہ وقتی ذہنی کیفیت اور یک رنگ عملی اسلوبِ حیات کا نام ہے۔ ﴿اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ ﴾ کا سماں مومن پر ہر آن اور ہر مکان میں طاری رہتا ہے۔ قرآن نے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے۔ ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَه لِلّٰهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرَاھِيْمَ حَنِيْفًا﴾ (پ۵۔ النساء۔ ع۱۸) اس شخص سے کس کا دین بہتر ہو سکتا ہے جس نے پورا پورا اپنی ذات کو اللہ کے حوالے کر دیا اور پورے حضورِ قلب کے ساتھ ایسا کرتا ہے اور وہ حضرات ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرتا ہے کہ وہ سب سے منہ موڑ کر صرف ایک (خدا)کے ہو رہے تھے۔ ﴿وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا﴾ (پ۲۹۔ المزمل۔ ع۱) اور اپنے رب کا نام لیتے رہو اور سب طرف سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ حدیث شریف میں اس کو احسان سے تعبیر کیا گیا ہے اور پھر خود ہی بتایا کہ احسان کسے کہتے ہیں ؟ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ فَاِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَاِنَّه يَرَاكَ (بخاری و مسلم) خدا کی غلامی اور عبادت یوں کیجئے جیسے آپ اسے دیکھ رہے ہیں (یعنی پورے حضورِ قلب کے ساتھ)اگر یہ کیفیت آپ کے لئے ممکن نہ ہو تو یوں تصوّر کیجئے کہ وہ تو آپ کو دیکھ رہا ہے۔ حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ رب کی معیت کا احساس قائم اور غالب رہے اور یہ استخصار کسی بھی وقت دل سے غائب نہ ہونے پائے۔ ؎ |