نہ غرض کسی سے نہ واسطہ، مجھے کام اپنے ہی کام سے تیرے ذکر سے تیری فکر سے، تیری یاد سے تیرے نام سے جب خدا کی معیت اور اپنی عبدیت کا احساس قلب و نگاہ پر یوں چھا جاتا ہے، اس وقت مصافِ زندگی میں جنودِ ابلیس تو کجا اگر خود ابلیس بھی آجائے تو منہ کی کھاتا ہے: ﴿اِنَّه لَيْسَ لَه سُلْطَانٌ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّھِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ﴾ (پ۱۴۔ النحل۔ ع۱۳) جو مومن ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ، ان پر شیطان کا کچھ قابو نہیں (چلتا)۔ کیونکہ اس کا شکار تو صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ یارانہ رکھتے ہیں اور خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں ۔ ﴿اِنَّمَا سُلْطَانُه عَلَي الَّذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَه وَالَّذِيْنَ ھُمْ بِه مُشْرِكُوْنَ﴾ (پ۱۴۔ النحل۔ ع۱۳) یہ ان لوگوں کی بات نہیں جو بشری کمزوری کی بناء پر پھسل پڑتے ہیں اور پھر ہوش آتے ہی خدا کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔ بلکہ یہ ان نادان دلیروں کا قصہ ہے جو جانتے ہیں کہ رخ غلط سمت کو ہو گیا ہے جو بہرحال انہیں منزل سے کہیں دُور لے جا کر پھینکے گا مگر اس احساس اور شعور کے باوجود وہ اِسی غلط رخ پر سفر جاری رکھتے ہیں ۔ یہ روش اور اندازِ حیات ایک غیر مسلم اور حق کے منکروں کے سلسلے میں بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ اسلوبِ زندگی صرف انہی بد نصیبوں کی بات تھی کیونکہ جو مسلم تھا وہ اس سے بالکل پاک تھا، دُور تھا اور محفوظ تھا۔ مگر آہ! وہی مسلم آج انہیں منکرینِ حق کی طرح دو کشتیوں پر سوار نظر آتا ہے اور زندگی کے اس بحرِ بے کنار میں کوشاں ہے کہ اس دو عملی کے ذریعے کسی طرح اسے ساحلِ مراد ہاتھ آجائے۔ اور گردابِ حیات سے یوں نکل جاؤں کہ خدا بھی راضی رہے اور شیطان بھی ناراض نہ جائے۔ دراصل یہ دین، دینِ محمدی نہیں ، مطلب کا دین اور مطلب کی مسلمانی ہے، دنیا کے جن پہلوؤں میں اپنا مادی بھلا محسوس کرتا ہے اس میں تو وہ کسی طرح پیچھے نہیں رہتا، لیکن جہاں ’’وعدۂ فردا‘‘ یا محض رضائے الٰہی کی بات ہوتی ہے تو وہاں وہ کترا کر کھسک جاتا ہے۔ حق تعالیٰ مسلمان کی اس نامسلمانی کا یوں گلہ کرتے ہیں : ﴿وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰي فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ ﴾(پ۱۸۔ النور۔ ع۶) اور کہتے ہیں ہم اللہ اور رسول پر ایمان لے آئے اور (خدا رسول کا)حکم مانا۔ پھر اس کے بعد ان میں کا ایک گروہ رو گردانی کرتا ہے۔ |