Maktaba Wahhabi

39 - 46
غلامی اور حریّت۔ اقبال رحمہ اللہ کی نگاہ میں پاکستان بن گیا، بن کر پھر ٹوٹ گیا اور ٹوٹ کر کچھ حصہ پھر غلام بن گیا۔ مگر دونوں جگہ ’نعرہ آزادی‘ کے اس ڈھونگ سے متاثر ہو کر عوام کالانعام بھی یہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ واقعی ہم آزاد ہو گئے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ دنیا میں ’آزادی اور حریت‘ کا مفہوم اور مضمون یہی ہو، جس کی نشان دہی وہ لوگ کر رہے ہیں لیکن ’بندۂ مسلم‘ کے ہاں حریت اور آزادی کا یہ مفہوم، حریت پر ایک الزام، تہمت اور افتراء ہے جس کو سیاسی شعبدہ بازوں نے گھڑ کر لوگوں کو اپنی غلامی میں پختہ اور مخلص بنانے کے لئے ایک بھونڈی سازش کے طور پر اختیار کیا ہے۔ یہ سازش کسی ایک ملک اور قوم کے خلاف نہیں کی گئی بلکہ یہ سب جگہ اور سب سیاسی عیاشیوں کی شرم ناک داستان اور کہانی ہے۔ یہاں بھی وہاں بھی۔ یہ بھی اور وہ بھی، سبھی یہی کچھ کر رہے ہیں اور سبھی جگہ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ اور پورے دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر کبھی عوام کو ان سیاسی عیاشوں کی اس بھونڈی سازش کا علم ہو گیا و یقیناً ان کے خلاف وہی معاملہ کریں گے جو ایک قومی مجرم کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش تو اب اقبال سے کیا پوچھے گا اس کے سامنے اب ٹیگور جیسے قوم پرست شاعر ہی ہوں گے جن کے ذریعے وہ اپنی قوم کو ہندؤں کی غلامی میں پختہ اور مخلص بنانے کی کوشش کریں گے، علیہ ما علیہ۔ لیکن پاکستانیوں کے لئے علامہ اقبال کی تلقینات کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ وہ تصورِ پاکستان کے خلّاق بھی تھے اور اس کے لئے مخلص بھی۔ آئیے! اسی فرصت میں ان سے پوچھئے کہ متحدہ ہندوستان سے الگ کر کے پاکستان کی تخلیق سے ان کی کیا غرض تھی اور ان کے ہاں غلامی اور حریت کا کیا تصور تھا، تاکہ ہم اس امر کا جائزہ لے سکیں کہ غلامی کے اس بحر بے کنار میں کیا واقعی پاکستان بنا کر ہم ساحل حریت سے ہمکنار ہو گئے ہیں یا کھجور میں اٹکا والی بات بن گئی ہے؟ علامہ اقبال کے نزدیک غلامی یہ ہے کہ: انسان انسان کے تابع فرمان ہو اور محض اس کی ذاتی مصلحتوں کا غلام ہو کر رہ جائے۔ آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد گوہرے داشت ولے نذر قباد جم کرد
Flag Counter