انگور کے خوشوں سے نچڑی ہوئی تازہ شراب ہے۔ اس کی عرب روایتیں دید و شنید سے نکل چکی ہیں ۔ کہانیاں چلا کرتی ہیں مجھے ان کہانیوں سے کوئی سروکار نہیں لیکن قہر سلطانی نے پورے شہر کو جرائم سے محفوظ کر دیا ہے۔ چہرے آوارہ نگاہوں سے مصئون ہیں اور جیبیں فن کاروں سے۔ قطع ید کے خوف اور سر قلم کیے جانے کے اندیشہ نے مجرموں کی کوکھ بانجھ کر دی ہے۔ یورپ اور ایشاء کے بڑے شہروں کی طرح یہاں مجرم کلیلیں نہیں بھرتے۔ آپ سونا اچھالتے نکل جائیں ۔ کوئی میلی نگاہ نہیں اُٹھے گی۔ نصف صدی پہلے بدو حجاج کو لٹ لیتے اور قافلوں پر چڑھ دوڑتے تھے۔ عبد العزیز ابن سعود نے ان سب کا خاتمہ کر دیا۔ آج ’’مہذب‘‘ ملکوں کے مقابلہ میں اس ’’غیر مہذب‘‘ ملک میں سب سے کم جرم ہوتے ہیں ۔ ان جرائم کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا جن سے یورپ اور امریکہ مالا مال ہیں ۔ تعزیر اتی سخت ہے کہ جرم کا حوصلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ کوئی جرم ہے تو انڈر گراؤنڈ کوئی کھلا نہیں اور کوئی آوارہ نگاہ نہیں ۔ مسلمان عرب عورت بازار کی ہرنی نہیں اور نہ وہ کھلے منہ پھرتی ہے۔ غیر ملکی نا مسلمان عورتیں اکا دکا ادھر اُدھر پھرتی نظر آتی ہیں لیکن آپ ان کا جائزہ نہیں لے سکتے اور نہ آپ کی نگاہیں ان کا تعاقب کر سکتی ہیں ۔ شورش کاشمیری (شب جائے کہ ن بودم ص ۱۹، ۲۰، ۲۱) مومن کبھی مایوس و ہراساں نہیں ہوتا خواجہ عبد المنان رازؔ آلام و مصائب میں پریشاں نہیں ہوتا مومن کبھی مایوس و ہراساں نہیں ہوتا ہے جُہدِ مسلسل ہی میں انسان کی عظمت جو ہار دے ہمت ہی وہ انساں نہیں ہوتا اُس قوم کی قسمت میں اندھیرے ہی رہے ہیں جس قوم کا کردار درخشاں نہیں ہوتا اُس شخص پہ اللہ کی رحمت نہیں ہوتی جو اپنے گناہوں پہ پشیماں نہیں ہوتا دنیا میں وہی شخص ہے توقیر کے قابلِ جو اپنے فرائض سے گریزاں نہیں ہوتا کر لیتا ہے تعمیر وہ پھر اپنا نشیمن جو برقِ حوادث سے ہراساں نہیں ہوتا مومن کی فتح ہوتی ہے اے رازؔ بالآخر جھوٹا کبھی اللہ کا پیماں نہیں ہوتا |