Maktaba Wahhabi

29 - 46
عالم اسلام کی دگر گوں حالت اور اُس کا علاج ادارہ عالمِ اسلام نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ صرف اس لئے ہیں کہ وہ بیرونی خطرات کے نرغہ میں ہے بلکہ اس اعتبار سے کہ اس نے خود بھی ایسے حالات پیدا کر لئے ہیں جو نزولِ مصائب اور خارجی فتنوں کے لئے اپنے اندر بلا کی کشش رکھتے ہیں ۔ اس لئے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جس کردار اور ذہنیت کا اس نے مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بعد اسے کسی بھی غیر کی ستم ظریفی کا شکوہ نہیں ہونا چاہئے۔ اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ [1] جو (نعمت) کسی قوم کو (خدا کی طرف سے) حاصل ہو، جب تک وہ (قوم) اپنی ذاتی صلاحیت کو نہ بدلے خدا اس (نعمت) میں کسی طرح کا تغیر (و تبدل) نہیں یا کرتا۔ مشکل یہ ہے کہ یہ مدعی اسلام، نہ اسلام میں پختہ ہے نہ کفر میں خالص۔ اس لئے دونوں حیثیتوں سے اس کے ساتھ جو معاملہ ہونا چاہئے تھا نہیں کیا گیا اور نہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف دنیا کا دستور نہیں ، بلکہ خدا کے ہاں بھی یہی دستور ہے کہ ہر جائی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ مطلب کی یاری، خدا کے ہاں کفر سے بھی بد تر چیز ہے۔ کیونکہ کفر تو ٹھوس اور لگی لپٹی رکھے بغیر ایک ’’انکار‘‘ کا نام ہے، لیکن مطلب کی یاری ایک گونہ انکار بھی ہے اور ایک گونہ مخول بھی، جو ظاہر ہے بہت بڑا سنگین جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیک ایک منافق، کافر سے بدتر ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ یہ نام کا مسلمان بے یقینی، بے عملی اور معصیت کوشی میں دنیا کے کسی بھی بے عمل اور بد کردار
Flag Counter