ایک دوست مسٹر ڈولنگ فلسطین چلا گیا۔ اس وقت فلسطین سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھا۔ ڈولنگ فلسطین میں انگریزی سفارت خانے میں ملازم تھا۔ مار میڈیوک سیر و سیاحت کی غرض سے اپنے دوست کے پاس فلسطین چلا گیا اور یہی سفر اسے اتھاہ تاریکیوں سے نور کی طرف لے آیا اور ڈیوک کی زندگی بدل گئی۔ مار میڈیوک کئی سال تک فلسطین، شام، مصر اور عراق میں گھومتا رہا اور آخر میں ترکی چلا گیا۔ اس سیاحت میں مار میڈیوک نے عربی ’’اور ترکی زبانوں میں اتنی مہارت پیدا کر لی کہ ان زبانوں میں اپنا ما فی الضمیر احسن طریقے سے ادا کر لیتا تھا اور ان زبانوں کے اعلیٰ لٹریچر کا مطالعہ کر سکا تھا۔ عربی زبان اور اندازِ معاشرت سے اس قدر متاثر ہوا کہ انگریزی لباس چھوڑ کر عربی قبا و عمامہ استعمال کرنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خلافتِ عثمانیہ میں اندرونی خلفشار پیدا ہو چکا تھا اور استعماری طاقتیں سلطنتِ عثمانیہ کی قوت توڑنا چاہتی تھیں ۔ جنگِ طرابلس اور جنِگ بلقان میں خلافت عثمانیہ کو شکستیں ہو رہی تھیں ۔ مار میڈیوک کا خیال تھا کہ عیسائی طاقتیں مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا بدلہ لینا چاہتی تھیں اور مذہبی تعصب کی بناء پر خلافت عثمانیہ کو شکستیں ہو رہی تھیں ۔ مار میڈیوک کا خیال تھا کہ عیسائی طاقتیں مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا بدلہ لینا چاہتی تھیں اور مذہبی تعصب کی بنا پر خلافت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی تھیں ۔ مار میڈیوک کے تمام اہم ترک لیڈروں سے دوستانہ مراسم تھے۔ ۱۹۱۲ء میں مار میڈیوک انگلستان واپس چلا گیا اور اینگلو عثمانیہ سوسائٹی قائم کی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ترکوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کی جائے اور ترکوں کے ساتھ کیے جانے والے مظالم انسانی ضمیر کے سامنے پیش کئے جائیں ۔ مگر استعماری طاقتوں کا ’’ضمیر‘‘ سویا ہوا تھا لہٰذا اس کی کوششیں بے اثر ثابت ہوئیں ۔ ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم اوّل چھڑ گئی اور انگریز کھل کر ترکی کے خلاف ہو گئے اور خلافتِ عثمانیہ کو تباہ کرنے کے لئے میدانِ جنگ میں اُتر آئے۔ عرب ملکوں کی سیاحت کے دوران اور اس کے بعد مار میڈیوک اسلام کا مطالعہ کرتا رہا۔ جب ’’اسلام‘‘ کی صداقت پوری طرح اس پر آشکار ہو گئی تو دسمبر ۱۹۱۴ء میں اس نے لندن میں قبولِ اسلام کا اعلان کر دیا اور مار میڈیوک پکتھال سے ’’محمد مار میڈیوک پکتھال‘‘ بن گئے۔ پکتھال کہا کرتا تھا کہ: ’’اس کی زندگی کا پُر امن اور عافیت بخش دور حلقہ اسلام میں داخل ہونے سے شروع ہوا۔‘‘ |