’’ترجیح دی ہے ہمارے مشائخ نے اس کو واسطے مذہب کے ساتھ اِس چیز کے کہ نہیں خالی ہے کسی چیز سے واسطے تامل کرنے والے اس کے پس ضرور ہے جو کہا ہمارے شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ نے کہ اگر ہوتی ہماری طرف کوئی شی البتہ مطابقت دیتا میں اس طرح پر کہ وایت آہستہ کہنے سے ارادہ کیا جاتا ہے کہ کڑک سخت نہ ہو اور روایت بآواز کہنے کی بمعنی کہنے اس کے ہے بیچ آواز نرم اور ذیل اس کے۔‘‘ اور مولانا عبد العلی بحر العلوم لکھنوی نے ارکانِ اربعہ میں لکھا ہے: ’’ولم یرد فیہ الا ما روی الحاکم عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ انہ صلٰی مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فاذا بلغ ولا الضالین قال امین واخفی بھا صوتہ وھو ضعیف الخ ’’نہیں آیا ہے آمین آہستہ کہنے میں مگر وہ کہ روایت کی حاکم نے علقمہ بیٹے وائل سے وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے یہ کہ نماز پڑھی انہوں نے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پس جبکہ پہنچے ولا الضالین پر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین اور پست کیا آمین کہنے میں آواز اپنی کو اور یہ روایت ضعیف ہے۔‘‘ لکھ کر یہ تحریر کیا: ولکن الامر فیہ سھل فان السنۃ التامین اما الجھر والاخفاء فندب اٰہ ’’اور لیکن بات اس میں آسان ہے اس لئے کہ سنت آمین کہنا ہے۔ لیکن بآواز کہنا یا آہستہ پس مستحب ہے۔‘‘ اور طحطاوی حاشیہ در مختار میں ہے: فعلی ھذا سنیۃ الاتیان بھا تحصل ولو مع الجھر ابو سود اٰہ ’’پس سنت اس بنا پر آمین کہنے کی حاصل ہوتی ہے اگرچہ ساتھ آواز کے ہو۔‘‘ اور مولانا عبد الحی رحمہ اللہ نے تعلیق الممجد میں لکھا ہے: |