طرف رجوع کر کے نکاح فسخ کرایا جا سکتا ہے، بہرحال کسی خاتون کی زندگی برباد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ ایک ساتھ تین طلاقیں : تین طلاقیں ایک ساتھ نہیں تھیں بلکہ بعض مفاسد کی روک تھام کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیاسۃً ان کو نافذ کر دیا تھا۔[1] اصل مسئلہ یہی ہے کہ تین طہروں میں الگ الگ تین طلاقیں دی جائیں ۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ بعض اوقات انسان مغلوب الغضب ہو کر طلاق دے بیٹھتا ہے۔ ٹھنڈا ہونے پر پچھتاتا ہے۔ اس لئے شریعت نے طلاق کے لئے تین طہر قرار دیئے۔ ایام حیض بھی نہیں ، پاکی کے دن مقرر کئے۔ اگر اس کے باوجود کوئی طلاق دینے پر مصر ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب یہ جوڑا ایک ساتھ نہیں چل سکے گا۔ حضور علیہ السلام کے عہد میں ایک شخص نے ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دے ڈالیں ۔ حضور علیہ السلام نہایت غصہ میں آگئے اور فرمایا: ایلعب بکتاب اللّٰه وانا بین اظھرھکم [2] ’’کیا وہ میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ مخول کرتا ہے؟‘‘ قرآن مجید کا نام اس لئے لیا کہ اس میں الگ الگ تین طلاقوں کی تلمیح ملتی ہے۔ چنانچہ فرمایا: اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ [3] ’’طلاق (رجعی) دو بار ہے۔ اس کے بعد اس کو مناسب طریقے سے رکھنا ہے یا باوقار طریقے سے چھوڑنا ہے۔‘‘ دو بار کہا ہے، دو طلاقیں نہیں کہا تو معلوم ہوا کہ الگ الگ ہوں گی و دو بار بنیں گی ورہ دو بار نہیں کہلا سکیں گی۔ دو بار کے بعد، تیسری باریہ کرو یا وہ کرو، کا حکم ہے۔ عربی میں ’’فا‘‘ تعقیب کے لئے آتی ہے۔ یعنی جب دو بار ہو جائیں پھر تیسری بار یہ کرو۔ اگر ایک ساتھ تین دے دی جائیں تو ’’تعقیب‘‘ (پھر) کے کوئی |