Maktaba Wahhabi

27 - 46
فرماتے اور انہیں تجارت کے اپنانے کا مشورہ دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب رہے وہ فنِ تجارت میں ماہر زیادہ ثابت ہوئے اور انہیں خوب ترقی ہوئی اور تجارت سے کمائی ہوئی دولت سے اشاعتِ اسلام کا کام لیا۔ فتوحات سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل اور بنیادی ذریعہ معاش تو تجارت ہی تھا۔ مگر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہلِ اسلام کو دُنیاوی جاہ و جلال س نوازا اور خطہ ارضی پر ایک اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذرائع معاش میں بھی اضافہ ہو گیا جیسے مالِ غنیمت کا خمس، مالِ فے، خصوصاً اراضی فدک اور سلاطین و ملوک کی طرف سے تحائف وغیرہ، ان ذرائع سے جو مال حاصل ہوتا اس سے اپنے اہل و عیال کا واجبی خرچہ سال بھر کا رکھ لیتے او باقی تمام مال فی سبیل اللہ خرچ کر دیتے۔ مالِ غنیمت کا خمس: مقاتلہ اور جنگ کے بعد کفار کے جن اموال پر مسلمانوں کا قبضہ ہو اس کو غنیمت کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے غنیمت کے مال کو یوں تقسیم فرمایا ہے کہ کل مالِ غنیمت کی چھوٹی بڑی چیز کو ایک جگہ جمع کر کے اس کے پانچ حصے کئے جائیں چار حصے غازیوں کے ہیں جو لڑائی میں شریک ہوئے اور پانچویں حصے کے پھر پانچ حصے کئے جائیں ، ان میں سے ایک حصہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، دوسرا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقربأ کا، تیسرا حصہ یتیموں کا، چوتھا حصہ مسکینوں اور پانچواں حصہ محتاج اور نادار مسافروں کا ہے۔ وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَئ آیت میں اسی حکم کی تفصیل مذکور ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خمس سے جو حصہ ملتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنی گھریلو ضروریات کو پورا فرماتے اور ازواجِ مطہرات کو سال بھر کا خرچہ دے کر باقی جو کچھ بچتا اِسے محتاجوں اور مفلسوں پر خرچ کر دیتے اور ضرورت سے زائد مال کو ایک دن کے لئے بھی گھر میں نہ رکھتےبلکہ اُسے فوراً بانٹ دیتے تھے۔ اراضی فدک: فے وہ مال ہے جو شمنوں سے لڑے بھڑے بغیر حاصل ہو، جیسے صلح سے یا کوئی لاوارث شخص مسلمانوں کے ملک میں ہو اس کے مرنے کے بعد جو کچھ اس کا سامان مسلمانوں کے ہاتھ لگے یا خراج کے طور پر مال ملے وہ سب مال فے کہلائے گا۔ اراضی فدک بھی مالِ فے ہے کیونکہ وہ بغیر جنگ و جدال مسلمانوں کے ہاتھ لگی تھیں ۔
Flag Counter