آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری رکھ لی اور دینار اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کر دیا۔ اور میرے حق میں دُعا کی ’’کہ اللہ تعالیٰ تجھے تجارت میں ہمیشہ نفع بخشے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ میں اگر مٹی بھی خرید لیتا تو اللہ تعالیٰ مجھے نفع عطا فرماتے۔ ایک دفعہ کا ذِکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک راہ گیر قافلہ سے ایک اونٹ خریدا۔ اور ان سے کہا کہ قیمت واپس آ کر ادا کرتا ہوں ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قافلے سے کچھ فاصلے پر چلے گئے تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ بھئی ہمیں خریدار کا پتہ تو پوچھ لینا چاہئے تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے دھوکہ ہو جائے۔ ان میں سے ایک خاتون بولی ’’مطمئن رہو یہ چہرہ دھوکہ دینے والا نہیں ۔‘‘ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غیر مسلم سے ایک گھوڑا خریدا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑا لے کر جا چکے تو بائع کو خیال آیا کہ گھوڑا سستا گیا۔ تب اس نے مختلف ہتھکنڈوں سے گھوڑا واپس کرانا چاہا۔ بائع نے گھوڑے کی واپسی کا تقاضا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھئی میرے اور تمہارے درمیان اس کا سودا ہو چکا ہے۔ اب واپسی کیسی؟ بائع نے کہا ’’اس پر شاہد پیش کریں ۔‘‘ وہ جانتا تھا کہ سودے کے وقت وہاں اور کوئی آدمی موجود نہ تھا۔ یہ سارا ماجرا ایک مسلمان بھی سُن رہا تھا۔ وہ فوراً پکار اُٹھا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گھوڑا تم سے خریدا ہے۔ جب بائع جا چکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت دینے والے مسلمان سے پوچھا کیا تم ہمارے سودے کے وقت حاضر تھے؟ اس نے جواباً کہا حضور حاضر تو نہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہتے ہیں وہ سچ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے کبھی جھوٹ سرزد نہیں ہوا، اس لئے مجھے شہادت دینے میں کسی قسم کا تامل نہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار بازار میں بھی خرید و فروخت کے لئے چلے جاتے اور ضرورت کی اشیاء خرید لاتے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غلہ منڈی میں گے۔ وہاں غلے کا ایک انبار لگا ہوا دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے اُلٹ پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اوپر خشک غلہ ہے اور نیچے بھیگا ہوا یا اوپر اعلیٰ قسم کا غلہ اور نیچے ردی قسم کا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوکاندار کو بلایا اور اُسے تنبیہ فرمائی کہ یاد رکھو مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا۔ جو آدمی دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کی گوناگوں مصروفیات کے باوجود تجارت کو ترک نہیں کیا تھا بلکہ اسے بطور ذریعہ معاش تا دمِ آخر جاری رکھا جیسے کہ مذکورہ بالا واقعات سے عیاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اصولِ تجارت سے آگاہ |