Maktaba Wahhabi

22 - 46
ہے۔ یہ خود بڑا راسخ العقیدہ یہودی تھا۔ مگر عیسائی معاشرے میں فکری و سیاسی نفوذ پانے کے لئے یہودیوں کو جدید طرزِ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ اس نے عیسائی اہل فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ پرشیا کا بیورو کریٹ کرسچن ولہم یورپ کا پہلا شخص تھا جس نے یہودیوں کے حق میں علانیہ آواز بلند کی۔ انقلاب فرانس کے فکری علمبرداروں میں والٹیئر، روسو اور مانیتسق صف اول میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ مؤخر الذکر دونوں مفکرین یہودی فکر سے متاثر اور ان کے زبردست حامی تھے، چنانچہ انقلابِ فرانس میں بنیادی طور پر یہودیوں ہی کا ذہن کام کر رہا تھا۔ اس انقلاب میں یہودیوں نے عیسائی عوام سے کہیں زیادہ جوش و خروش سے حصہ لیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹیانیکا کے مقالہ Jews کے مصنف کے الفاظ میں ’’انقلاب فرانس یہودیوں کے لئے آزادی کا پیغام لے کر آیا اور اس تاریک دور کا خاتمہ ہو گیا۔ جو ۳۱۱ء سے ۱۷۸۹ء کی طویل مدت پر پھیلا ہوا تھا۔‘‘ ۲۸ ستمبر ۱۷۹۱ء کو فرانسیسی اسمبلی نے یہودیوں کو ووٹ دینے کا حق دیا۔ اس کے بعد مغربی اور شمالی یورپ کے ملکوں میں یہودیوں کو حقوق ملے ان ملکوں کی اقتصادی زندگی پر تو وہ پہلے ہی چھا چکے تھے اب سیاسی زندگی پر بھی چھا گئے۔ خود اپنے قومی دائرے میں ہر جگہ اسرائیل کے ماضی کو سائنسی انداز میں پیش کیا گیا۔ اخبارات و رسائل نکلنے لگے، اعلیٰ تعلیمی ادارے کھل گئے۔ طباعتی انجمنیں وجود میں آگئیں ۔ عجائب گھر قائم ہوئے جن میں یہودی قوم کی تاریخ ماضی کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ مشرقی یورپ اور روس میں البتہ صورتِ حالات اب بھی مختلف تھی۔ یہاں یہودیوں سے نفرت پہلے ہی کی طرح شدید رہی اور مختلف وقفوں کے ساتھ منظم قتل عام ہوتا رہا۔ نفرت اور موت کی اس مہیب فضا سے نکلنے کے لئے بہت سے یہودی خاندانوں نے عیسائیت قبول کر لی، تاہم جس علمی و فکری تحریک کا آغاز مغربی اور شمالی یورپ میں ہوا۔ مشرقی یورپ اور روس کے یہودی بھی اس سے متاثر ہوئے۔ ’’غیتو‘‘کی چار دیواریوں میں جدید تعلیمی ادارے کھل گئے۔ طبرانی تعلیم کا احیاء ہوا۔ سیاسی و شہری حقوق حاصل کرنے کے بجائے روسی زاروں کا تختہ الٹ کر سوشلسٹ ریاست قائم کرنے اور فلسطین پر قبضہ کرنے کی تحریکیں اسی علاقے میں شروع ہوئیں ۔ (دیکھئے یہودی ریاست اسرائیل کے پہلے صدر ڈاکٹر وائیزین کی کتاب (Trial and Errors) (باقی آئندہ)
Flag Counter