Maktaba Wahhabi

21 - 46
پسندی (لبرلزم) کی لہر کے پیچھے ’’غیتو‘‘کی چار دیواری میں پرورش پانے والا یہی جذبہ اور تصور کار فرما تھا۔ اس وقت عیسائی معاشرے کی بنیادی قوت دو ادارے تھے، پہلا ادارہ کلیسا تھا اور دوسرا حکومت و ریاست، کلیسا کا اثر ہر جگہ حکومت پر غالب تھا۔ اور وہی سب سے زیادہ یہودیوں کا مخالف تھا۔ اس اثر کو ختم کرنے کے لئے پہلے مذہب و سیاست کی تفریق کا نظریہ پیش کیا اور پھر سرے سے مذہب کے بنیادی عقائد ہی کو ڈائنا میٹ کر دیا۔ عیسائی بادشاہ یہودیوں کے خلاف نفرت و عناد کی فضا پیدا کرنے میں برابر کے حصہ دار تھے۔ ان کی قوت کو توڑنے کے لئے ان کی مطلق العفانی استبداد اور جاگیردارانہ نظام، جس پر پوری ریاست کا سیاسی ڈھانچہ قائم تھا۔۔ کے خلاف آواز بلند کی اور جاگیرداری کے خاتمے، شہری آزادیاں اور شہری حقوق دینے اور اقتدار میں عوام کو حصہ دار بنانے کی تحریک شروع کیا۔ لبرلزم کی یہ تحریک نہایت سازگار ماحول میں اُٹھی۔ یورپ صدیوں تک فکری و تہذیبی پستیوں میں غرق رہنے کے بعد ابھر رہا تھا۔ نئی نئی علمی و فکری راہیں کھل رہی تھیں ۔ سائنس کے میدان میں تحقیقات زور شور سے جاری تھیں ۔ نئے نئے انکشافات ہو رہے تھے۔ بھاپ کی قوت کے انکشاف سے صنعت کی دنیا میں انقلاب آگیا تھا۔ کارخانے اور فیکٹریاں قائم ہو رہی تھیں ۔ تنگ نظر کلیسا نے جس کے پاس صرف محدود سی اخلاقی تعلیمات کے سوا اجتماعی زندگی کے مسائل کا کوئی حل نہ تھا، اس علمی و فکری انقلاب کو خلاف مذہب قرار دے دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں کے تعلیم یافتہ طبقے اور پادریوں کے درمیان کش مکش شروع ہو گئی۔ عیسائی حکومتوں نے پادریوں کا ساتھ دیا اور فکر جدید کے علمبرداروں پر سخت ظلم توڑے، اس کا ردِّ عمل جدید مفکرین اور دانش ور طبقے میں مذہب اور برسرِ اقتدار جاگیردار اور حکمران طبقے کے خلاف نفرت اور فکری و سیاسی آزادی کی تڑپ کی صورت میں ہوا۔ یہودی نظریات نے اس نفرت کو مزید ہوا دی سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کے پردے میں یہودی مفکرین نے عیسائی دانشوروں کو اپنے حق میں اسعمال کیا۔ ان مفکرین میں موسے میڈلسون (۱۷۲۹ء۔ ۱۷۸۶ء) کو نمایاں مقام حاصل
Flag Counter