Maktaba Wahhabi

56 - 62
جنگ جمل کے دن مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی بات سے نفع دیا جو میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنی تھی، بعد اس کے کہ قریب تھا کہ میں جمل والوں سے جا ملتا اور ان کے ساتھ ہو کر لڑائی کرتا۔ فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ اہل ایران نے کسری کی صاحبزادی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ: ایسی قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنی باگ دوڑ ایک عورت کے سپرد کر دی۔ یہ کہہ کر در اصل حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ نے معذرت کی کہ چونکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا اس گروہ کی رہنما ہیں اس لئے اس حدیث کی رو سے اس میں شمولیت جائز نہیں۔ چنانچہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اپنی اس لغزش پر عمر بھی پچھتاتی رہی تیں۔ ابن سعد میں ہے کہ وہ کہا کرتی تھیں: ا کاش میں درخت ہوتی، اے کاش میں پتھر ہوتی، اے کاش میں روڑا ہوتی، اے کاش میں نیست و نابود ہوتی۔ (طبقات ابن سعد) بخاری میں ہے کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر سے فرمایا تھا کہ مجھے حضور کے ساتھ دفن نہ کرنا بلکہ آپ کی دوسری بیویوں کے ساتھ دفن کرنا۔ (لا قدفنی معھم وادفنی مع صواحبی بالبقیع لازکی بہ ابدا۔ بخاری باب ما جاء نی فی قبر النبی) مستدرک حاکم میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ میں نے آپ کے بعد ایک جرم کیا ہے (حاکم) طبقات ابن سعد میں ہے کہ: جب وہ یہ آیت پڑھتی تھیں: وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ (اے پیغمبر کی بیویو، اپنے گھروں میں ٹھہری رہو) تو اس قدر روتی تھیں کہ آنچل تر ہو جاتا تھا۔ غر یہ ہے کہ عورت کا دائرہ کار ’’گھر‘‘ ہے۔ قومی اقتدار، ملکی سیاست اور ملی نمائندگی نہیں ہے۔ جو عورتوں کو سیاست کے میدان میں لا رہے ہیں، ان کے لئے ان کو گھروں میں رکھنا مشکل ہو جائے گا اور سیاست میں اس قدر گندگی اور سٹراند پیدا ہو جائے گی کہ اس میں کسی شریف اور سنجیدہ انسان کے لئے سانس لینا دشوار ہو جائے گا۔ جمہوریت: اسلامی میں جو جمہوریت ہے، اس سے مختلف ہے جس کا اس وقت غوغا اور چرچا ہے۔ مروج جمہوریت میں نمائندگانِ قوم، دستور ساز بھی ہوتے ہیں۔ قانون بھی دیتے ہیں گویا کہ وہ
Flag Counter