قوم اور ملت اسلامیہ کی یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ: جو لوگ انتخاب میں حصہ لیتے ہیں، ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ننگ دین بھی ہیں۔ اور ننگ قوم بھی، اسلامی تعلیمات سے بالکل بے خبر، قرآنی علم و عمل کے لحاظ سے بالکل کورے، ان کی نجی زندگی حد درجہ گھناؤنی اور ان کی ذہنی اڑان حد درجہ پست، نگاہ کوتاہ، فکر محدود، کردار میں بھرپور سطحیت، اکثر ’’رنگیلے شاہ‘‘ ’’راج دلارے‘‘ اگر ان کے پاس جاگیر اور دولت نہ ہوتی تو ان کو قوم کے جوتوں میں بھی جگہ نہ ملتی۔ ہم پوچت ہیں کہ اگر ملت اسلامیہ میں جان ہوتی تو کیا یہ لوگ ہمارے سر کا تاج بن سکتے تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ، جو امانت خدا نے آپ کے حوال کی ہے اس کی پوری درد و سوز کے ساتھ حفاظت کریں، یہ نبوی مسندان ناپاک لوگوں کے سپرد نہ کریں جس پر کبھی ابو بکر و عمر، عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے پاک لوگ بیٹھا کرتے تھے، جب ایسے ناہنجار اور نابکار لوگ ملت اسلامیہ کی اس سب سے اُونچی اور پاک گدی پر براجمان ہوتے ہیں تو کیا آپ کو غیرت اور شرم نہیں آتی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پاک اور معصوم گدی کو کن نا اہل لوگوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ عورتوں کی سربراہی: عورتوں کے ان تجربات سے فائدہ اٹھانا کچھ برا نہیں، جو صرف وہی بتا سکتی ہیں لیکن یہ بات کہ ا نکو قوم کی لیڈر بھی بنا دیا جائے دین اسلام کی تعلیمات سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ جنگ جمل ۳۶ ھ میں ہوئی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نہ کے خلاف لڑنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا تھا چنانچہ حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ نہ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لقد نفعنی اللّٰہ بکلمۃ سمعتہا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ایام الجمل بعد ما کدت ان ألحق باصحاب الجمل فا قاتل معھم قال لما بلغ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اھل فارس قد ملکوا علیھم بنت کسری قال لن یفلح قوم ولوا امرھم امرأۃ (بخاری باب کتاب النبی صلعم الی کسری و قیصر) |