Maktaba Wahhabi

52 - 62
جس کو قوم نے اس کی فہم و فراست کی بنا پر امیر بنایا وہ اس کے لئے حیات بخش ثابت ہو گا اور جس شخص کو قوم نے فہم و ہوش کے علاوہ کسی اور وجہ سے امیر بنایا وہ خود بھی ڈوبے گا او ان کو بھی لے ڈوبے گا۔ کیا ہمارے ملک میں یہی کچ نہیں ہو رہا ہے۔ بہتر آدمی کو چھوڑ کر دوسروں کو محض ان کے اثر و رسوخ یا دھن دولت اور برادری کی وجہ سے ووٹ دے کر کامیاب بنایا جاتا ہے۔ اور جو لوگ عقل و ہوش، سیاسی سمجھ بوجھ کے حامل اور دیانتدار ہیں وہ کھڑے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں، ان کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ آج جو لوگ کام کے نیک آدمیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ان کو اس کے نتائج کا اسی وقت اندازہ ہو گا جب ان کی آنکھیں بند ہوں گی۔ جتھے اور برادری کی لاج: آج کل جتھے اور برادریاں بہت بڑی مصیبت بن رہی ہیں۔ ان کی خاطر لوگوں کو اندھے کنویں میں بھی چھلانگ لگانی پڑے تو نہیں چوکتے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ کا ارشاد ہے: لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات عصبیۃ۔ ابو داؤد۔ عن جبیر) وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے قومی عصبیت کی طرف دعوت دی۔ اس شخص سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں جو قومی عصبیت ک لئے لڑتا ہے اور وہ شخص ہمارا کچھ نہیں لگتا جو قومی عصیت پر مرا۔ غرض یہ ہے کہ اعانت کا معیار، ذات پات کی بجائے اہلیت ہو۔ جو ذات پات کو معیار بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ ظاہر ہے وہ اسلام کی روح کے خلاف کرتا ہے ورنہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حق کے لئے اپنی قوم سے کیوں لڑتے؟ یہی کیفیت سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور ارکان کی ہے کہ وہ اپنی جماعت کے گھٹیا آدمی کی حمایت کے لئے بھی جان کی بازی لگا لیتے ہیں مگر اس کے مقابلے میں جو ملک و ملت کے لئے مفید اور بہتر ہوتا ہے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ عن ابن مسعود: عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من نصر قومہ، علی غیر الحق فھو کالبعیر ردی فھو ینزع بذنبہ۔ (ابو داؤد)
Flag Counter