Maktaba Wahhabi

99 - 135
ان تینوں نکات پر ہماری گفتگو سےصحیح مسلم کا مقام واضح ہوچکا ہے اور ساتھ ہی صحیحین کے بارے میں مفتی صاحب کا دلی بغض بھی واضح ہوگیا۔ اعتراض : عمر بن ثابت پر کلام کے بارے میں استذکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’و اظن الشیخ عمر بن ثابت لم یکن عندہ ممن یعتمد علیہ۔‘‘[1] جواب :خیانت کی حد ہوتی ہےجن کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ خود عمر بن ثابت کو ثقہ قرار دے رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں : عمر بن ثابت الأنصاري وهو من ثقات أهل المدينة[2] یعنی عمر بن ثابت مدینہ کے ثقہ لوگوں میں سے ہیں ۔ اب اندازہ لگائیں کہ الاستذکار میں تو ان کی توثیق کو ثابت کیا جارہا ہے ،مگر مفتی صاحب اسی کتاب کے حوالے سےعمر بن ثابت پر جرح کررہے ہیں ۔ ثانیاً: صاحب استذکار نے یہ بھی لکھا ہے کہ حدیث ثوبان رضی اللہ عنہ عمر بن ثابت کی روایت کو قوی کرتی ہے۔[3] ثالثاً:یہی صاحب استذکار علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ بڑے واشگاف الفاظ میں شوال کے ان چھ روزوں کی فضیلت بھی بیان کرتے ہیں اور امام مالک رحمہ اللہ کے قول کی توجیہ بھی کرتے ہیں ۔لیکن مفتی صاحب یہاں آکر ان سے اختلاف کرجاتے ہیں ۔ جہاں تک عمر بن ثابت کی توثیق کا معاملہ ہےتووہ پہلے ہی حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ بیان کرچکے ہیں جیساکہ وہ لکھتے ہیں :’’حافظ ابن حبان نے آپ کو کتاب الثقات (149/5)میں ذکر کیا ۔امام عجلی نے کہا : مدنی تابعی ثقہ (تاریخ العجلی :1333)ابن شاہین نے انہیں کتاب اسماء الثقات (693)میں ذکر کیا امام مسلم ، امام ترمذی ، امام ابن خزیمہ ، حافظ ابوعوانہ اور حافظ بغوی نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دے کر ان کی توثیق کی ہے۔حافظ ابن حجر نے کہا : ثقہ ہے(تقریب التہذیب :4780) ‘‘[4] اعتراض : استذکار کے حوالے سے لکھتے ہیں : اس روایت کے موقوف و مرفوع ہونے کا اضطراب بھی موجود ہے۔[5] جواب:یہ بھی بہت بڑا دھوکہ ہے ،صاحب استذکار کی عبارت یہ ہے: ’’هكذا ذكره موقوفا على أبي أيوب وقد روي عن يحيى بن سعيد عن عمر بن
Flag Counter